معاملے کا پس منظر
آج سے تقریبا 3 ماہ قبل سما ٹی وی پر معروف اینکر ندیم ملک نے اپنے پروگرام میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کو زبردستی سزا دلوانے سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اعلی' افسران سے ملاقات کا انکشاف کیا تھا جو کہ جج ارشد ملک سے تحقیقات کر رہے تھے۔ جس میں ان افسران نے بتایا تھا کہ کیسے جج ارشد ملک کی ایک 20 سالہ پرانی نازیبا ویڈیو 'دوسری پارٹی' کے ہاتھ لگی تھی اور کیسے انہیں کانسٹیٹیوشن ایوینیو میں بلا کر وہ ویڈیو دکھائی گئی اور ان سے نواز شریف کے خلاف مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیئے کہا گیا کہ سیدھے ہاتھ فیصلہ کردو ورنہ ویڈیو جاری کر دی جائے گی۔ دوسری پارٹی کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کون طاقت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سب میں طاقتور ترین دو لوگوں کے نام آتے ہیں۔ ندیم ملک کو اس کلپ میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ اس معاملے کی پوری تفصیل سکرین پر نہیں بتا سکتے۔
جج ارشد ملک کیس کیا تھا؟
ارشد ملک نے دسمبر 2018 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے بعد سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے ان کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی تھی جس میں انھیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا دینے کے لیے ان پر دباؤ تھا۔
اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ارشد ملک کو ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے احتساب عدالت کے جج کے طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے اُنھیں لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔
ارشد ملک ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد میں تعینات ہوئے اور وہ لاہور ہائی کورٹ کے ہی ماتحت تھے۔
مذکورہ جج کی ویڈیو منظر عام آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اُنھیں واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کی بجائے وفاقی وزارت قانون میں بطور او ایس ڈی رکھ لیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد ارشد ملک نے ایک بیانِ حلفی دیا تھا جس میں انھوں نے نواز شریف کے بیٹے سے ملاقات کا اعتراف کیا تھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر فیصلے میں کہا تھا کہ ارشد ملک نے جو بیان حلفی جمع کروایا تھا وہ دراصل ان کا اعترافِ جرم تھا۔