لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس انوار حسین نے چیئرمین پی سی بی کے انتخابات کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ پی سی بی کی جانب سے امتیاز رشید صدیقی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پی سی بی الیکشن کمشنر نے عبوری انتظامی کمیٹی بورڈ آف گورنرز کو غلط طریقے سے تبدیل کیا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پی سی بی کے الیکشن کمشنر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر نیا بورڈ آف گورنر بنانے کی ان کی کوشش کو کالعدم قرار دیا جائے۔
پی سی بی کے وکیل نے سماعت کے موقع پر بتایا کہ جسٹس شاہد کریم پی سی بی کے انتخابات کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کی بھی سماعت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
دلائل سننے کے بعد جسٹس انور نے چیئرمین پی سی بی کے انتخابات کے خلاف 28 جون کو جاری کیا گیا حکم امتناع واپس لے لیا۔ عدالت نے اپنے نوٹ میں کہا کہ اسی نوعیت کی درخواستیں دوسرے بینچ میں فکس ہیں۔ ان درخواستوں کو بھی متعلقہ بینچ کے سامنے فکس کیا جائے۔
مزید برآں، انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جج سے درخواست کی کہ پی سی بی کے چیئرمین کے انتخاب کے خلاف تمام شکایات پر مشترکہ سماعت کریں۔
عدالت نے درخواستوں پر مزید کارروائی کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی۔
اس کے علاوہ بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی چیئرمین پی سی بی کے انتخابات 17 جولائی تک روکنے کا حکم دیا تھا۔
قبل ازیں پی سی بی کی عبوری مینجمنٹ کمیٹی کی سربراہی کرنے والے نجم سیٹھی چیئرمین بورڈ کی دوڑ سے باہر ہوگئے تھے جس کے بعد پی سی بی کے الیکشن کمشنر احمد شہزاد فاروق رانا نے انتخابات کے انعقاد تک بورڈ کے قائم مقام چیئرمین کا چارج سنبھالا۔
ذکا اشرف چیئرمین کے عہدے کے لیے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے جنہیں وزیر اعظم نے بورڈ آف رکن کی حیثیت سے نامزد کردیا تھا جس کے بعد ان کی بورڈ آف گورنرز میں شمولیت کی منظوری پی سی بی بورڈ مینجمنٹ کمیٹی نے دے دی تھی۔
پیپلزپارٹی نے چند روز پہلے ذکا اشرف کو چیئرمین پی سی بی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ وزیر اعظم نے بورڈ کے 2014 کے آئین کے آرٹیکل 10 (1) (ڈی) کے تحت پیٹرن اِن چیف کی حیثیت سے پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز کے لیے سابق چیئرمین ذکا اشرف اور سینئر وکیل مصطفیٰ رمدے کو نامزد کیا تھا۔