تیل مافیا سرگرم، کمپنیوں کی جانب سے قانون کی کھلی خلاف ورزی: پیٹرول کی قلت 10 روز تک جاری رہے گی

08:14 AM, 3 Jun, 2020

نیا دور
جہاں ایک طرف کرونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی پھیلا رکھی ہے وہیں وہ معاشی بھونچال کا بھی سبب بن رہا ہے اور اس کی ایک علامت تیل کی قیمتوں کا  تاریخ کی کم ترین سطح پر آجانا ہے۔ اس کمی کا اثر پاکستان جیسے  معاشی تباہ حالی کا شکار ملک کے لئے تو ایک خوشخبری ہے پھر چاہے وہ کم وقت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔

حکومت نے تیل کی قیمت میں خاطر خواہ کمی بھی کر دی ہے تاہم اب عوام کو یہ قدرے سستا ایندھن مل ہی نہیں رہا۔  ملک کے بیشتر حصوں میں پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے اور متعدد پیٹرول پمپس بند ہیں۔  عوام کی لمبی قطاریں ہیں اور مایوسی ہے۔  پیٹرولیم مصنوعات کی اس عدم دستیابی کی وجہ  آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور متعلقہ حکام کی مقررہ ڈپو پر لازمی اسٹاک کو یقینی بنانے میں ناکامی بتائی جارہی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک خبر کے مطابق قیمتوں میں حالیہ نظرثانی کے بعد مہینے کے پہلے دو دن چھوٹے سٹاک کے فوری ختم ہو جانے کے بعد بہت سے شہروں اور علاقوں میں ایندھن کی سپلائی میں سب سے بڑی کمی دیکھی گئی۔

اس کے بعد تیل کمپنیوں کو پیٹرولیم ڈویژن  اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)  کی جانب سے سٹاک کے مکمل خاتمے سے بچنے کے لیےایک صارف کو زیادہ سے زیادہ 500 یا 1000 روپے تک کا پیٹرول فراہم کرنے کی پابندی کا مخصوص طریقہ کار اپنانے کا کہا گیا۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ  تیل کی دستیابی اور ترسیل میں ہونے والی اس دانستہ بد انتظامی کو اگر اب بھی رفع کر لیا گیا تو بھی یہ قلت 10 دن سے عرصے تک رہے گی کیونکہ تیل کمپنیوں نے ابھی تک  تیل کی درآمد کا حکم نہیں دیا اور قیمتوں میں کمی کے باعث پیٹرول پمپوں سے پیشگی تیل فراہمی کے معاہدوں میں نقصان سے بچنے کے لیے قیمتوں میں کمی کے امکان کے تحت ریفائنریزسے مقامی پیداوار کو کم کیا ہے۔

ڈان اخبار نے لکھا ہے کہ  ملک میں تیل کے کاروبار کے قانون کے تحت تمام تیل کمپنیوں اور ریفائنریز لائسنس کے لیے پابند ہیں کہ وہ ہر وقت پیٹرولیم مصنوعات کے کم سے کم 21 دن کے استعمال کا احاطہ یقینی بنائے  قطع نظر اس کے کہ  ملک حالت جنگ میں ہو یا امن میں۔ اس لئے صورتحال اوگرا اور تیل کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے سامنے واضح تھی جو مئی کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں بھی تیل کی مارکیٹنگ کی بڑی کمپنیوں کے کم اسٹاک پر خطوط کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔

جبکہ  80 سے 90 تیل پیداواری کمپنی اور ریفائنریز میں سے کسی نے بھی اس لازمی ضرورت کو پورا نہیں کیا اور گزشتہ چند دنوں سے ملک کا پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کا تقریباً مجموعی اسٹاک اوسطاً 11 دنوں سے زیادہ کا نہیں تھا۔

اس کے علاوہ بھی زیادہ تر اسٹاک بندرگاہ کے قریب تھے یا کچھ کیسز میں بڑے ڈیپوز کی ملکیت میں تھے لیکن پمپ اسٹیشنز تک اس کی نقل و حرکت ناہموار رہی مثال کے طور پر 2 جون کوپنجاب میں پیٹرول اور ڈیزل کے اسٹاک کی اوسط تین اور چار دن کی کھپت ہوئی۔  سندھ میں پیٹرول اور ڈیزل کا اوسطاً اسٹاک بالترتیب 7 روز اور 16 روز کا رہا جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ صرف 4 دن کا رہا۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں ڈیزل اور پیٹرول کے لیے کل اسٹاک بالترتیب 7 اور 3 روز کے لئے کافی تھے جبکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں دونوں مصنوعات کا اسٹاک 6 روز کے لیے کافی تھا۔ تاہم کوئی بھی کپمنی اور ریفائنری لازمی حد کو پورا نہیں کر رہی تھی۔ جبکہ اس غفلت  کے ساتھ عید کی چھٹیوں کے دوران سپلائی میں اضافی خلل پڑنا شروع ہوا تھا۔

تیل اور اوگرا کے ڈائریکٹر جنرل نے عید سے قبل ہی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں اور ریفائنریز کو سپلائی بڑھانے کے لیے کہا اور مئی کے آخری ہفتے میں تمام کمپنیوں سے اسٹاک کے تفصیلی پوزیشنز کا مطالبہ کیا حالانکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو روزانہ کی فراہمی مستقل بنیاد پر دستیاب ہوتی ہے۔

29 مئی کو ہائیڈرو کاربن ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سے تمام مصنوعات اور تمام کمپنیوں کے ریٹیل اسٹیشن اور اسٹاک پوزیشن کی تصدیق کرنے کے لیے کہا گیا جو وقت لینے والا عمل تھا اور پہلے ہی دیر سے ہوچکی تھی

آخری کوشش کے طور پر پٹرولیم ڈویژن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ذریعے کوشش کی کہ دو ہفتوں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو لیکن ای سی سی نے بھی آخری لمحے میں معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تھا۔

پٹرولیم ڈویژن نے باضابطہ طور پر تیل کی صنعت کو موجودہ نرخوں پر فروخت کرکے اپنے کچھ نقصانات کی تلافی کے لیے اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔

اس نے ای سی سی کو متنبہ کیا تھا کہ پٹرولیم قیمتوں میں کمی سے سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی جس کو معمول پر آنے میں ہفتوں اور مہینوں لگ سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کے اسٹاک غیر معمولی طور پر کم تھے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ وزارت نے اپنی سمری میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیاں اور ریفائنریز کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ 21 دن تک کے اسٹاک کو برقرار رکھے اور نہ ہی اس نے اطلاع دی کہ تیل کمپنیاں تقریباً تین سالوں جب عالمی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا تو انوینٹری فوائد کے ذریعہ  منافع کما رہی ہیں اور اس طرح کا فائدہ حاصل کرنے کے بعد کبھی بھی صارفین یا قومی خزانے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جاتا تھا۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ اگر اس بحران کو جلدی مینج نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ یہ جون کے مہینے میں چلتا رہے اور مقامی طور پر پیٹرول پمپس لوٹ مار کرکے عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ نکلوا لیں اور حکومتی حلقوں سے پیٹرولیم مافیا کا راگ الاپنے کو ملے۔
مزیدخبریں