خواتین امیدواروں کی نامزدگی
حالیہ انتخابات کی طرح ماضی میں سیاسی جماعتیں خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے میں ہچکاہٹ کا شکار ہی ہیں اور اس کی وجہ خواتین کی انتخابی سرگرمیوں میں کم دلچسپی بتائی جاتی ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں بھی صرف ایک خاتون جنرل نشستوں پر انتخاب جیت کر قانون ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔
اس مرتبہ اگر چہ کافی تعداد میں خواتین نے جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں جمع کروائیں، تاہم محض تین خواتین اب تک ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
سب سے زیادہ 10 خواتین نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لیے درخواستیں جمع کروائیں، جن میں سے صرف ایک خاتون امیدوار کو نامزد کیا گیا۔
مسلم کانفرنس کی 5 خواتین نے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں جمع کیں جن میں سے اب تک دو خواتین کو ٹکٹ جاری ہوئے۔ امکان ہے کہ اگلے مرحلے میں مزید ایک خاتون کو بھی ٹکٹ جاری ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کے پاس کل 5 خواتین نے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں جمع کروائیں تاہم ابھی تک کوئی ٹکٹ جاری نہیں ہوا۔ امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی دو خاتون امیدوار کو براہ راست انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ جاری کرے گی۔
پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی جاری فہرست میں کوئی خاتون شامل نہیں جبکہ ٹکٹ کے لیے جمع ہونے والی 196 درخواستوں میں 9 خواتین امیدوار بھی شامل تھیں۔ پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق اگلے مرحلے میں بھی کسی خاتون کو ٹکٹ جاری ہونے کا امکان نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں و کشمیر کے صدر چودھری لطیف اکبر کے مطابق جن خواتین نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لیے درخواستیں دیں ان کے مقابلے میں ان حلقوں سے مضبوط امیدواروں نے بھی درخواستیں جمع کروائی تھیں۔ 'ظاہر ہے ہر جماعت الیکشن جیتنے کی خواہشمند ہے ہوتی ہے اور وہ بہتر سے بہتر امیدوار نامزد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔'
پپپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنی کارکن خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں لیکن نامزدگی سے قبل حلقے کے اندر ان کی پوزیشن کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔
قانون ساز اسمبلی کا ڈھانچہ اور انتخاب کا طریقہ کار
گذشتہ قانون ساز اسمبلی کل 49 اراکین پر مشتمل تھی تاہم چار جنرل نشستوں کے اضافے کے بعد آئندہ اسمبلی 53 اراکین پر مشتمل ہو گی۔ ان 53 نشستوں میں سے45 پر بالغ رائے دہی کے اصول کے تحت براہ راست انتخابات ہوں گے۔ براہ راست انتخابات والے حلقوں میں پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں وکشمیر کے 12 انتخابی حلقے بھی شامل ہیں۔ جبکہ آٹھ مخصوص نشستوں میں سے خواتین کی پانچ ، علماء و مشائخ، ٹیکنو کریٹس اور سمندر پار کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مختص ہے۔ ان مخصوص نشستوں پر انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت ہوتے ہیں اور خواتین کی ایک نشست پر نامزدگی کے لیے اسمبلی میں 9 ووٹ جبکہ دیگر نشستوں کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم کا پہلا مرحلہ
پاکستان پیپلز پارٹی نے 24 مئی کو امیدواروں کا اعلان کیا اور پہلے مرحلے میں 45 میں سے 34 انتخابی نشستوں کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جا چکے ہییں۔ 11 انتخابی نشستوں پر دوسری جماعتوں کے ساتھ ممکنہ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیش نظر ٹکٹ جاری نہیں کیے گئے۔
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے پہلے مرحلے میں 45 میں سے 24 نشستوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کیا
پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کی تجاویزپر وزیر اعظم عمران خان نے پہلے مرحلے میں 34 نشستوں پر پارٹی امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی ہے۔ گیارہ نشستوں پر مسلم کانفرنس کے ساتھ ممکنہ اتحاد یا مناسب امیدوار دستیاب نہ ہونے کے پیش نظر ٹکٹ جاری نہیں کیے گئے۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹ کے امیدواروں کے انٹرویو مکمل کر لیے ہیں تاہم ابھی تک امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گیا۔
ٹکٹوں کے لیے درخواستوں کی وصولی کا عمل
سیاسی جماعتوں نے رواں سال کے آغاز میں ہی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیکرعام انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں سے ٹکٹ کے لیے درخواستوں کی وصولی کا سلسلہ شروع کیا۔
سب سے زیادہ 300 درخواستیں پاکستان تحریک انصاف نے وصول کی جس نے ٹکٹ کی درخواست کے ہمراہ 75 ہزار روپے فی کس فیس وصول کی اور اس طرح جماعت کو کل 2 کروڑ 25 لاکھ روپے آمدن ہوئی۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ 199 درخواستیں مسلم لیگ (ن) نے وصول کیں اور 55 ہزار روپے فی درخواست کے ساتھ ٹوٹل ایک کروڑ 9 لاکھ 45 ہزار روپے فیس کی مد میں جمع ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 196 درخواستوں کے ہمراہ 30 ہزار روپے فی کس کے حساب سے 58 لاکھ 80 ہزار روپے فیس جمع کی۔
مسلم کانفرنس کو ٹکٹ کے لیے کل 173 درخواستیں موصول ہوئیں اور 30 ہزار روپے فی درخواست کے حساب سے کل 51 لاکھ 90 ہزار روپے پارٹی فنڈ میں جمع ہوئے۔
نوجوان امیدواروں کی نامزدگی
اب تک سیاسی جماعتوں نے جن امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ جاری کیے ہیں، ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ نئے امیدواروں کا تناسب قابل ذکر حد تک کم ہے جبکہ ان میں سے بیشتر کی عمریں پچاس سال سے زائد ہیں۔
مسلم کانفرنس کے نامزد امیدواروں میں سے زیادہ تک کی عمریں 50 سال سے زائد ہیں، 40 سال سے 50 سال کی درمیان عمر والے 4 امیدوار شامل ہیں جبکہ 40 سال سے کم عمر کا کوئی امیدوار شامل نہیں۔
پیپلز پارٹی کے چار امیدواروں کی عمریں 40 سال سے کم ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں میں سے 5 کی عمریں 40 سال سے کم ہیں۔