درخواست گزار وکیل کلثوم خالق نے درخواست میں وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی درخواست دی تھی، جسے اسلام أباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ناقابل سماعت قرار دیدیا۔
دوران سماعت عدالت عالیہ نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ عدالت عظمیٰ نے کہاں کہا ہے کہ ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہوگا؟ عدالت وکیل کلثوم خالق سے استفسار کیا کہ آپ کس طرح متاثرہ ہیں؟
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ میں وکیل ہوں، یہاں اسلام آباد میں بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 25 مئی کو رات 8 بجے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ 19 مقدمات درج ہوئے ہیں، حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے۔
وکیل کلثوم خالق نے دوران سماعت مؤقف اختیار کیا کہ ضلعی انتظامیہ نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقدمات درج کیے ہیں، جب کہ سپریم کورٹ نے کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ میری جماعت کے لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار وکیل کلثوم خالق سے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف کیا ہوا ہے؟ کیا کوئی چھاپا مارا گیا ہے؟ احتجاج ضلعی انتظامیہ کی اجازت لے کر کرنا ہوتا ہے اور سپریم کورٹ اس معاملے کو نمٹا چکی ہے۔