سننے میں آیا ہے ایک اور آڈیو لیک آنے والی ہے۔ مبینہ طور پر اس آڈیو کال میں مس گوگی کی آواز ہے جو کسی سے ملکہ عالیہ کو تحفے میں ملنے والی کسی ہیرے کی انگوٹھی پر شکوہ کر رہی ہیں۔ مس گوگی فون پر کسی شخص کو کہتی سنائی دیتی ہیں کہ 'ملکہ عالیہ خوش نہیں' یا شاید اسی طرح کے کچھ الفاظ۔ جب دوسری طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ ایسی کون سی گستاخی سرزد ہو گئی ان سے تو مس گوگی فرماتی ہیں کہ یہ ہیرے کا سائز صرف 3 کیرٹ تھا۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ ہاں، یہ بہت اچھا ہیرا ہے، بہترین کوالٹی کا۔ مس گوگی کو لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ صاف جواب دیتی ہیں کہ ملکہ عالیہ بہترین کوالٹی کے 5 کیرٹ سے کم کے ہیرے پر کسی صورت راضی نہ ہوں گی۔ اگر عظیم خان اپنے اشتعال انگیز بیانات سے باز نہ آئے تو یہ آڈیو لیک ناظرین کی بھرپور تالیوں میں ریلیز کر دی جائے گی۔
وہ مارچ والے کیا ہوئے؟
اور اب بتاتے ہیں آپ کو کہ جن مارچ والوں نے خان صاحب کی تقلید میں دنیا کے آخری کونے تک مارچ کرنا تھا، وہ مارچ والے دن گئے کہاں۔ ان میں سے کچھ تو اپنے گھروں سے باہر ہی نہیں نکلے۔ جو نکلے ان میں ایک تو تھے پارٹی کے سابق صوبائی صدر۔ وہ اکیلے نکلے، افواہوں کے مطابق جی ٹی روڈ پر لاہور کے شمال میں چند ہی میل آگے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک دوست کے گھر پر رکے۔ دوست نے ان کے لئے زبردست طعام کا بندوبست کر رکھا تھا جس کے بعد انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ کچھ دیر آرام فرمانا چاہتے ہیں۔ انہیں ایک بہترین قسم کے اے سی والے کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں ان کا 'آرام' خوابِ خرگوش میں بدل گیا۔ ہماری چڑیا کو میزبانوں نے خود بتایا کہ یہ عظیم رہنما نیند سے بیدار ہو کر اور کئی کپ چائے پینے کے بعد اپنے کمرے سے باہر نکلے، گاڑی میں بیٹھ کر نکلنے لگے تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آزادی مارچ میں جا رہے ہیں؟ وہ ہنس کر بولے کہ واپس گھر جا رہے ہیں، جو ڈیفنس لاہور میں ایک پیاری سی عمارت ہے۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے
جب عظیم خان کے پیارے حم اظ لاہور میں اپنی رہائش گاہ سے پورے 150 مظاہرین کے ساتھ عظیم خان کے آزادی مارچ میں شامل ہونے کے لئے نکلے تو کسی نے پوچھا کہ ان کے ساتھ اتنی کم تعداد کیوں ہے۔ حم اظ، جو ہیں تو بڑے پیسے والے لیکن اپنی کنجوسی کے لئے مشہور ہیں، بولے کہ انہوں نے 'عام لوگوں' کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو جواب ملا کہ ٹرانسپورٹ اور کھانے کے علاوہ روزانہ کے 15000 روپے بھی لیں گے۔ اور یہ ہمارے مسٹر سکروج کرنے کو تیار نہ تھے، لہٰذا تعداد کم تھی۔
اسی طرح جب سفید بالوں والی لیڈی ڈاکٹر صاحبہ عظیم خان کی پکار پر سڑکوں پر نکلیں تو انہوں نے ایک دوست کی گاڑی استعمال کی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، پولیس نے لیڈی ڈاکٹر کی گاڑی پر خوب لاٹھیاں برسائیں اور اسے ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ گاڑی لیڈی ڈاکٹر کی اپنی نہیں تھی۔ اب دوست صاحب سخت خفا ہیں اور لیڈی ڈاکٹر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گاڑی کا ہونے والا نقصان بھریں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاڑی کو پولیس گردی سے قریب 20 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ لیکن اب خاتون ان کی کال نہیں اٹھا رہیں۔