ہمارے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد سرکاری محکموں کے پاس دفاتر کی کمی تھی تو قناتیں لگا کر آفس بنائے گئے۔ کاغذ کی قلت تھی، عموماً چپڑاسیوں (ان دنوں مقصود چپڑاسی پیدا نہیں ہوئے تھے) کے ہاتھ پر پیغام لکھ کر آگے بھیجا جاتا تھا۔
کاغذ کے دونوں طرف سنگل سپیس میں لکھا جاتا تھا۔ سرکاری ملازم گھر سے چائے پی کر آتے تھے، اپنا ٹِفن ساتھ لاتے تھے، گھر جا کر چائے پیتے تھے۔ پورے آفس میں ایک پنکھا (محمد دین پنکھے گجرات والوں کا) چلتا تھا۔
چھتیں اتنی اونچی تھیں کہ بارہ فٹ کے پائپ سے پنکھا نیچے لٹکایا جاتا تھا۔ صرف ڈپٹی کمشنر کے پاس کار تھی، جس میں پیٹرول وہ خود ڈلواتا تھا۔ عام سرکاری ملازم سائیکل، بس یا ٹرین استعمال کرتا تھا۔
ایک عظیم مجاہد ایم ایم عالم کے نام پر کوئی سڑک نہیں تھی نہ انٹرنیشنل برینڈز یا فوڈ چین تھیں۔ لوگ جناح کیپ یا رومی ٹوپی پہن کر ہی معزز لگتے تھے۔ ان کو معزز لگنے کے لئے برینڈڈ کپڑوں جوتوں اور ویگو ڈالوں کی ضرورت نہیں تھی۔
پولیس نیکر پہن کر بانسی ڈنڈے اٹھائے ہی قانون نافذ کرنے کو کافی تھی۔ سرکاری وسائل اپنے مہمانوں پر خرچ نہ ہوتے تھے، نہ ہی سرکاری اوقات میں مہمان دفاتر میں پہنچتے تھے۔
افواج پاکستان بھی سادگی اور قوت کی علامت تھی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی ہمارے مجاہد عام بندوقوں اور سیسنا طیاروں کی بنیاد پر دشمن پر حاوی تھے۔
ججز جسٹس کارنیلئس کی طرح کے حق گو تھے، حلال حرام کی تمیز رکھتے تھے۔ سیاستدان بھی محترمہ فاطمہ جناح، خان عبدالقیوم خان، نوابزادہ نصراللہ، خواجہ محمد رفیق شہید، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ولی خان، جی ایم سید کی طرح کے درویش تھے۔ چند دانے تو ہر بوری میں سے خراب نکل آتے ہیں لیکن پوری بوری کو گھن نہیں لگا تھا۔
پھر دولت، تکبر، اختیار، اقتدار اور سیاست نے گٹھ جوڑ کر لیا۔ آپ جانتے ہیں کہ کس کے خلاف؟ عوام کے خلاف، میڈیا ساتھ مل گیا، محمد علی جوہر نایاب ہوگئے اور میر خلیل الرحمن عام ملنے لگے۔
آپ نے دکھتی رگ کو چھیڑا ہے تو سنیں کہ اشرافیہ متحد اور مسلح ہے اور عوام منتشر اور نہتے۔ ایسے میں کوئی کسٹوڈیئن نہیں۔ قرضے لئے جاتے ہیں تو "حکومت چلانے" کے لئے، عیاشیانہ ڈھب کے لئے۔
مڈل کلاس ختم ہو کر لوئر مڈل میں اور لوئر مڈل پاورٹی لائن سے نیچے۔ انفراسٹرکچر پھیل کر غریب کی روٹی بھی کھا گیا ہے۔ زرعی ملک اناج کی قلت کا شکار ہو جائے تو حکمران اللہ کا عذاب ہی لگتے ہیں۔
سنا ہے کہ پنجاب کے سی ایم ہائوس میں جشن فتح جاری ہے اور 24/7 لنگر چل رہا ہے۔ من پسند وینڈرز سے 8000 روپیہ پر ہیڈ کھانے منگوائے جا رہے ہیں اور "فاتحین" مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بزدار کے کچن میں بھی زنگ لگ گیا تھا، اب تو ہروقت برتن کھڑکنے اور تیز تیز بھاگتے دوڑتے ملازمین کا شور ہے۔
کاسٹ آف لِونگ جب کاسٹ آف ڈیتھ سے بڑھ جائے تو ہر نرم ہاتھ اور گلابی چہرے والا مجرم لگتا ہے۔ انارکی تب پھیلتی ہے جب غریب کی انارکلی (روٹی) کو دیوار میں چُن دیا جائے۔
اس دیوار کے ردے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں، ان کے ہینڈلرز اور اشرافیہ اس بحران کی ذمہ دار ہیں لیکن توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ ابھی وقت ہے پھر وقت بھی نہیں ملے گا۔