افغان امریکہ مذاکرات میں کئی موڑ آئے، اور آخر کار وہ وقت آ پہنچا، جب معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مقامی ہوٹل میں افغان امن معاہدے پر دستخط کی تقریب ہوئی، جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت 50 ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس امن معاہدے میں پاکستان کا کردار کسی تعریف کا محتاج نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان، امریکہ اور طالبان میں ثالثی کا کردار ادا نہ کرتا تو یہ امن معاہدہ ممکن ہوتا۔
پاکستان نے ہر فورم پر افغان امن معاہدے کی حمایت کی اور ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی۔ وزیراعظم نے ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں افغانستان کے معاملے میں ثالثی کی پیش کش کی۔ افغان معاہدے میں پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو ٹرمپ کا بھارت میں پاکستان کے حق میں بیان دینا ہی کافی ہے، وہ بھی ہزاروں کے مجمے کے سامنے۔
اگلے دن پھر ایک صحافی نے امریکی صدر کو پاکستان مخالف جملے کہنے پر اکسانے کی کوشش کی تو ٹرمپ نے صحافی کی گھومتی ہوئی بال لیفٹ کرنے کے بجائے فرنٹ فٹ پر آ کر چھکا لگایا اور پاکستان کے حوالے سے ایک ذمہ درانہ بیان دیا۔ ٹرمپ کی پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کی تعریفیں کرنا حیران کن بات اس لیے نہیں ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے، اس لیے تو آج کل امریکہ بہادر ہمیں آنکھیں نہیں دکھا رہا ورنہ تو ہمیں آئے روز ان سے ڈومور ہی سننے کو ملتا تھا۔
معاہدے سے دو دن قبل عمران خان کا چند گھنٹوں کے لیے قطر جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ جب معاہدہ ہونے والا تھا تو اس سے کچھ دیر پہلے طالبان لیڈروں نے صحافیوں سے بات چیت کی تو وہ پراعتماد نظر آئے اور اسے اپنی فتح قرار دیتے رہے۔ معاہدے پر افغان طالبان رہنما ملاعبدالغنی برادر اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خیل زاد نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کی رو سے افغانستان میں القاعدہ اور داعش سمیت دیگر تنظیموں کے نیٹ ورک پر پابندی ہو گی، دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں کرنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی، آئندہ 135 دن کے اندر 8 ہزار 600 غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہو گا جبکہ آئندہ 14 ماہ کے اندر افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کی واپسی مکمل ہو جائے گی۔
معاہدہ تو ہو گیا ہے، اب بھی بہت سے خدشات پائے جا رہے ہیں کہ کیا یہ معاہدہ زیادہ دیر تک چل پائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب امریکہ اپنی فوجیں یہاں سے نکال لے گا تو افغانستان میں پھر افراتفری کا عالم ہو گا، وہاں پر رہنے والے مختلف قبائل اور گروپس آپس میں دست و گریباں ہوں گے۔ اس تمام تر صورتحال میں افغانستان کی سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہو گا جو ابھی حکومت اور اپوزیشن میں ہیں۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ سیاسی جماعتیں ہمیں اس سارے عرصے میں کچھ زیادہ مضبوط نظر نہیں آئیں۔ یہ چند ایک علاقوں تک محدود ہیں۔ عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور اشرف غنی میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات کی خلیج واضح ہے۔ دوسری جانب طالبان کی قیادت متحد دکھائی دیتی ہے۔ طالبان کی آپس میں پوری ہم آہنگی کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ہفتہ پرامن گزارا، کسی قسم کی کوئی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی۔
ٹرمپ کا اس معاہدے پر عمل درآمد کرنا اس کی مجبوری ہے کیونکہ الیکشن سر پر ہیں، جیسے اوباما نے اسامہ بن لادن کو مار کر الیکشن میں کیش کروایا تھا اسی طرح صدر ٹرمپ امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا اور امن معاہدے کو اپنی الیکشن کمپین میں ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک پاکستان سے ایران، بھارت، روس تک سب افغانستان میں امن کے خواہ ہیں۔ خاص کر پاکستان چاہے گا کہ افغانستان میں امن ہو، کیونکہ افغانستان میں بدامنی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہم پچھلے سالوں میں دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں کتنی بھاری قیمتی ادا کی ہے، ہم نے وہ جنگ لڑی ہے جو ہماری جنگ نہیں تھی۔
امن معاہدے پر جب دستخط ہوئے تو طالبان قیادت نے اسے اپنی جیت قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے امریکہ بہادر کو افغانستان میں مشکلات سے دوچار رکھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ جنگ اتنے سالوں تک جاری نہ رہتی اور نہ ہی امریکہ کو آج کوئی معاہدہ کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ وقت کا پہیہ دیکھیں کیسا گھوما کہ 19 سال پہلے امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کو یہ ضمانت دے رہے تھے کہ ہم اب افغانستان کی زمین کو کسی دوسرے ملک کی زمین کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور آج طالبان اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ یہ زمین اب کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
امید کی جا سکتی ہے کہ یہ امن معاہدہ قائم رہے اگر ایسا ہوتا ہے تو اصل میں جیت امن کی ہو گی، افغانستان کی عوام کی ہو گی، جو کئی سالوں سے گولے باردو میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔