مبینہ آڈیو میں فواد چوہدری اور ان کے بھائی 'لاہور چیف جسٹس' اور 'بندیال' نامی شخص کے درمیان 'ملاقات' کروانے کی بات کرتے سنے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے بھائی فیصل کو ہدایت کی کہ وہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی سے ملیں اور انہیں پیغام دیں کہ ’’پورا ٹرک آپ کے ساتھ کھڑا ہے، لہٰذا ہمیں بتائیں کہ اب کیا کرنا ہے۔‘‘
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ تارڑ کے خلاف تین سے چار مقدمات درج کرنا چاہیئیں تاکہ ان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ چونکہ انہوں نے آخری نام استعمال کیا ہےاس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ عطا اللہ تارڑ کے بارے میں بات کر رہے تھے یا اعظم نذیر تارڑ کے بارے میں۔
جواب میں فیصل نے فواد کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اگلی صبح ان کی ہدایات پر عمل کریں گے اور انہیں صورتحال سے آگاہ کریں گے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل صحافی عمر چیمہ نے یوٹیوب چینل پر اپنے وی-لاگ میں بتایا تھا کہ آڈیو لیکس کا طوفان ابھی تھمتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کچھ آڈیو لیکس آچکی ہیں اور آئندہ کچھ دنوں میں مزید آنے کا خطرہ ہے۔ یہ وہ آڈیو ٹیپس ہیں جس میں ماضی اور حال دونوں کی ریکارڈنگز ہیں۔ ان میں حاضر سروس اور سابق دونوں طرح کے جج صاحبان کی مختلف کیسز کے حوالے سے غیر متعلقہ افراد سے گفتگو ریکارڈ ہے۔
سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران، حال ہی میں سابق وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کی جسٹس سیدمظاہر علی نقوی کے ساتھ ہونے والی گفتگو لیک ہونے کے حوالے سے بھی بحث ہوئی جس پر لارجر بنچ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آڈیو ٹیپنگ نہیں ہونی چاہیے لیکن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ایسا کام نہیں ہونا چاہیے لیکن ججز کو بھی اپنا ‘کنڈکٹ’ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
صحافی نے کہا کہ یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی کیونکہ نہ ہی آڈیو ٹیپنگ کے عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی توجیح دی جاسکتی ہے، نہ ہی ‘کنڈکٹ کی خلاف ورزی’ کے عمل کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن لا کے تحت جب کسی ادارے سے انفارمیشن مانگی جاتی ہے تو وہ ‘ہارم ٹیسٹ’ اپلائی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان تفصیلات کو پبلک کرنے سے فائدہ زیادہ ہو گا یا نقصان۔ اس حوالے سے عدلیہ کو کوئی سخت قدم اٹھانا چاہیے۔ وائر ٹیپنگ کے لئے امریکی ٹریبیونل سیٹ اپ کا حوالہ دیتے ہوئے عمر چیمہ نے کہا کہ انہیں ایک ایسا سیٹ اپ بنانا چاہیے تاکہ صرف ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ساری اتھارٹی اور پاور نہ دی جائے۔ ان کو کسی جگہ پر جوابدہ ہونا چاہیے۔
اس سارے معاملے میں فی الحال جج صاحبان کو یا سیاستدانوں کو اعتراض ہو رہا ہو گا، عمران خان کو اعتراض ہو رہا ہو گا لیکن المیہ تو یہ ہے نا کہ جب جو شخص حکومت میں ہوتا ہے تو مخالف شخص کی ٹیپنگ ہو رہی ہو تو کوئی پرواہ نہیں کی جاتی لیکن جب خود پر بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ تو ایک ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ وہ آپ کے لئے غلط ہے وہ دوسروں کے لئے بھی غلط ہونا چاہیے۔
اس پر اعزاز سید نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ جو بھی ڈسکلوژر کرنے والا ہوتا ہے چاہے وہ عدلیہ میں ہو یاانتظامیہ میں، اس کے تحفظ کے لئے کوئی قانون ضرور ہونا چاہیے۔ ‘وسٹل بلوور پروٹیکشن لا’ ضرور ہونا چاہیے۔