ایک کنفیوژن کا شکار حکمران جس نے کبھی وقت پڑنے پر فیصلہ نہیں کیا

12:55 AM, 3 May, 2020

کاشف احمد
پرانے وقتوں کی بات ہے ایک شخص ملک کا بادشاہ بننے کا خواہش مند تھا، لیکن ہر وقت کنفیوژن کا شکار رہتا تھا۔ کھیلوں کی دنیا کا بادشاہ تو وہ تھا ہی، ساتھ ہی ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ لیکن کنفیوزن نے کبھی بھی اس بے چارے کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ جب تک کھیلوں کی دنیا سے اس کا تعلق تھا، اسے سیاست اور اقتدار کی رسہ کشی سے سخت نفرت تھی۔ ایک طرف وہ کہتا تھا کہ مجھے مانگنے سے سخت نفرت ہے، حتیٰ کہ اپنے والد سے بھی پیسے مانگتے ہوئے اسے شرم محسوس ہوتی تھی، تو دوسری طرف فلاحی کاموں کے لئے چندہ اکھٹا کرتے کرتے اس کی آدھی زندگی گزر چکی تھی۔

چند ایک کامیاب فلاحی ادارے قائم کرنے کے بعد جب اس کی کنفیوژن بڑھی تو وہ بھی سیاست میں آ گیا۔ سیاست اور اقتدار کی جنگ میں بھی وہ کنفیوژ ہی رہا۔ وہ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اسے اقتدار تک پہنچنے کے لئے کون سا راستہ چننا ہے۔ جمہوری جدوجہد کا راستہ یا مقتدرہ کا حمایت یافتہ بننے کا۔ اسی کنفیوژن میں راستہ بدلتے بدلتے آخر کار 22 سالہ جدوجہد کے بعد وہ ملک کا بادشاہ بننے میں کامیاب ہو گیا، لیکن کنفیوژن تھی کہ اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تھی۔ بادشاہ بننے کے بعد بھی وہ کنفیوژ ہی رہا کہ ریاست کا معاشی نظام کس طرح چلانا ہے، عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر یا دوست ممالک سے امداد لے کر، یا پھر اپنے موجودہ وسائل کےاندر رہتے ہوئے ہی کام چلانا ہے؟ وہ یہ گتھی کبھی بھی سلجھا نہیں سکا۔ ایک دن امداد اور قرضوں کو بھیک قرار دیتا تو دوسری طرف امداد اور قرضے حاصل کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا۔

اسے مخالفین کے احتساب کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ اپنے سوا سب کو کرپٹ سمجھتا تھا۔ اس کا خیال یہ تھا کہ سابقہ حکمران اشرافیہ میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور جاگیردار شامل تھے جنہوں نے عوام کا خون چوسا۔ اگر ان کا احتساب کر لیا جائے تو اس کی ریاست کو کسی امداد یا قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن دوسری جانب اس کے اپنے وزیر مشیر بھی سرمایہ دار اور جاگیردار ہی تھے جو کہ آٹا چینی چوری اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث تھے۔ اب کنفیوژن یہ تھی کہ کس طرح ریاست کی عوام کو یقین دلایا جائے کہ وہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف ہے۔



ایسا کرنے کے لئے جب وہ اپنی صفوں میں موجود کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا تو اس کا اقتدار ہی خطرے میں پڑتا دکھائی دینے لگتا۔ نتیجہ کنفیوژن کی صورت میں کچھ اس طرح نکلتا کہ ایک کرپٹ سے جان چھڑانے کے لئے دوسرے کرپٹ آدمی کو دوست بنانا پڑتا۔ جب اس طرح بھی کام نہیں بنتا دکھائی دیتا تو وہ مذہب کا استعمال کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔

ایک دفعہ کچھ اس طرح ہوا کہ اس کے دور اقتدر میں ایک وبا پھیل گئی اور وہ بری طرح کنفیوژ ہو گیا کہ اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے۔ باقی دنیا کی ریاستیں اس وبا سے نمٹنے کے لئے لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنا چکی تھی لیکن وہ کنفیوژ ہی رہا۔ اسے ایک طرف تو ملکی معیشت کی فکر رہتی تو دوسری طرف دہاڑی دار غریبوں کی۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے ماتحت اداروں نے یہ کنفیوژن دیکھتے ہوئے از خود لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو غریب دہاڑی داروں کی مشکلات کو بڑھتا دیکھ کر اس نے لاک ڈاؤن کے مخالف بیانیہ دینے کی کوشش کی تاکہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔

دوسری طرف اس کی ماتحت تمام ریاستوں میں غیر مرئی قوتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن بھی کروا دیا گیا۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اس لاک ڈاؤن کو قبول کرتا اور اپنی رٹ برقرار رکھتا، اس نے عجیب و غریب حکمت عملی اپنائی جس کے تحت وہ ایک طرف تو لاک ڈاؤن کے حق میں بیان دیتا تو دوسری طرف اس کی مخالفت بھی کرتا۔ اس کنفیوژن کی وجہ سے عوام بھی کنفیوژ ہو گئے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بیک فٹ پر رہے۔



نتیجے میں وقت بھی ضائع ہو گیا اور لاک ڈاؤن بھی غیر مؤثر ہو گیا۔ وبا بھی اسی طرح پھیلتی رہی۔ تو اس نے ایک طرف تو مدارس اور مولویوں اور انہیں چندہ دینے والے سرمایہ داروں کے اشتراک سے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہوئے لاک ڈاؤن پر حملہ جاری رکھا اور دوسری طرف یہ بیانیہ دینے کی کوشش کی کہلاک ڈاؤن دراصل اشرافیہ کے حق میں ہے اور اشرافیہ کی ایما پر کیا جا رہا ہے کیونکہ اشرافیہ کو وبا لگنے کا خوف ہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ سرمایہ دار غریبوں کا خون چوس چوس کر زندگی بھر اربوں کمانے کے بعد اپنے مزدوروں کو چند ماہ چھٹی کے ساتھ تنخواہ دینے پر کسی طور آمادہ نہیں ہورہے تھے اور لاک ڈاؤن کے سخت خلاف تھے۔

کنفیوژ بادشاہ اپنے کرم فرماؤں کو خوش رکھنے کے لئے یہ بیانیہ دینے کی کوشش کرتا رہا کہ لاک ڈاؤن دراصل اشرافیہ کی ضرورت ہے۔ لیکن دراصل لاک ڈاؤن کو کھولنا اس کی اپنی ضرورت تھی تاکہ اس کی اے ٹی ایمز خوش رہیں۔
مزیدخبریں