اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی مخصوص آفت کے بعد کسی بھی ریاست یا حکومت کے لئے اس آفت کے مضمرات سے نمٹنے کے لئے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایک مجموعی پالیسی ترتیب دینا ہوتی ہے اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ انتظامی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے حکومت ایک ایسی متفقہ حکمت عملی ترتیب دے جس سے ملک میں رہنے والی عوام کی تمام پرتیں فائدہ حاصل کر سکیں اور لوگوں کے حالات زندگی معمول کے مطابق چلنے لگیں۔
وزیر اعظم پاکستان کی چندہ مہم شاید اسی مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہو اور اسے مذہبی دلیل کے طور پر درست بھی مانا جا رہا ہو۔ آفات سے نمٹنے کے لئے اور آفات اور وباؤں سے قومیں دوبارہ کیسے ترقی یافتہ ہوتی ہیں اس کو ایک عالم حق کیسے دیکھتا ہے، مولانا وحیدالدین خان کے مضمون ’بربادی کے بعد بھی‘ سے اس کا درست ادراک کیا جا سکتا ہے۔ مولانا وحیدالدین خان راقم طراز ہیں:
’’ایک انگریز عالم مسٹر آئن نش جاپان گئے، انہوں نے وہاں گیارہ سال رہ کر جاپانی زبان سیکھی اور گہرائی کے ساتھ جاپانی قوم کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مطالعہ اور تحقیق کے نتائج ’سٹوری آف جاپان‘ کے نام سے شائع کیے۔
مسٹر آئین نش کے مطابق جاپانی قوم کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سیاست نہیں تھی بلکہ کانٹو کا عظیم زلزلہ تھا۔ یکم ستمبر 1923 کو زلزلہ کے زبردست جھٹکوں نے مشرقی جاپان کو تہس نہس کر دیا، جو کہ جاپان کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ تھا۔ دوسرا نسنائی ساخت کا زلزلہ 1945 میں جاپان کی شکست تھی، جب دو ایٹم بموں نے جاپان کے دو شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ ’زلزلہ‘ سے اگر تعمیر نو کا ذہن بیدار ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس زلزلہ اگر صرف محرومی اور جھنجھلاہٹ کا احساس پیدا کرے تو اس کے بطن سے سیاسی چیخ و پکار وجود میں آتی ہے، جو نتیجہ کے اعتبار سے اتنا بے معنی ہے کہ اس سے زیادہ بے معنی کوئی چیز نہیں‘‘۔
مولانا وحیدالدین خان کے مطابق عمل کا جذبہ اور بہتر سوچ انسان کو کامیابی کی طرف لے کر جاتی ہیں، عمل کا جذبہ موجود ہو تو انسان بہتر سوچتا ہے اور بہترین منصوبہ بندی کرتا ہے۔ آسودہ اور پر سکون زندگی جب رکاوٹوں سے دوچار ہوتی ہے تو زندگی کی قوت مزاحمت بڑھتے ہوئے نئی منصوبہ بندی اور نئے عمل کے ساتھ ایک بہتر آغاز ہوتا ہے۔
موجودہ وبائی دور میں پاکستانی حکومت کا رد عمل پوری دنیا سے مختلف رہا۔ پوری دنیا میں مساجد، خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ سمیت سب عبادتگاہیں بند ہیں لیکن پاکستان کی حکومت کی مذہبی علما کے سامنے روایتی بے بسی نے اسے مجبور کیا کہ وہ مساجد کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے باجماعت عبادات پر پابندی سے باز رہے۔ مرکزی حکومت کا ایک صوبائی حکومت پر تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ اس وبائی دور میں، جب دنیا کی دوسری قومیں اپنے سارے سیاسی اختلافات کو بھلا کر انسانوں کی جان بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور اپنے سارے دستیاب وسائل کو بروئے کار لا رہی ہیں، ایسے میں پاکستان کی مرکزی حکومت اور صوبہ سندھ کی حکومت ایک دوسرے کے خلاف بیان داغنے کے نتیجے میں کم و بیش بایئس کروڑ انسانوں کو کیا فائدہ پہنچانا چاہتی ہیں؟
وزیر اعظم کی ٹیلی تھون کا سب سے آخری اور دلچسپ مرحلہ پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول اور دو چار سال پہلے تک غیر متنازع رہنے والے عالم دین مولانا طارق جمیل کی دعا اور مختصر خطاب تھا۔ یاد رہے کہ مولانا اس سے پہلے بھی دعا میں سیاسی جملے، جن میں انہوں نے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام لے کر انہیں اچھا ہونے کی سند عطا کی تھی کی وجہ سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر ہدف تنقید بنے تھے اور عمران خان کے سیاسی مخالفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
مولانا نے اپنے مختصر خطاب میں پاکستانی معاشرے کو بالعموم اور پاکستانی ذرائع ابلاغ کو بالخصوص جھوٹا قرار دیتے ہوئے، معاشرے میں پنپتی دیگر سماجی برائیوں کو بالواسطہ وبائی امراض کا سبب قرار دیا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ پاکستان میں عورتوں کے لباس اور ان کی وجہ سے پھیلی بے حیائی اس وبا کی اہم وجہ ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی توصیف میں جملہ سازی کرتے ہوئے مولانا باری تعالیٰ سے گویا ہوئے کہ عمران خان کو یہ ملک کچرے کی صورت میں ملا تھا اور انہوں نے خد ا سے التجا کی کہ محترم عمران خان کو ہمت اور توفیق دے کہ وہ اس کچرے کا صفایا کر سکیں۔
موجودہ سائنسی دور میں اگر مولانا کی تمام باتوں کو درست مان بھی لیا جائے تو چند سوالات جنم لیتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل کا تعلق چونکہ تبلیغی جماعت سے ہے اور ان کی جماعت پوری دنیا میں مذہبی تبلیغ میں مصرف عمل ہے، ان کے مصاحبین امریکہ سے انگولا اور چین سے لے کر آسٹریلیا تک تبلیغی دوروں پر جاتے ہیں اور مسلم و غیر مسلم کمیونٹیز میں اسلام کا پیغام رضاکارانہ طور پر پہنچانے کا کام کر رہے ہیں جو کہ مذہبی رجحان رکھنے والے خواتین و حضرات کے نزدیک ایک احسن عمل ہے۔ پاکستان میں ہر سال تبلیغی جماعت کے لاکھوں نفوس پر مشتمل اجتماعات ہوتے ہیں جن میں پاکستان اور پوری دنیا سے انسان شرکت کرتے ہیں۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ مولانا کے بقول جو معاشرہ جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی کا گڑھ ہے اس پر مولانا اور ان کے مصاحبین کی محنت شاقہ بے اثر رہی ہے؟
کیا مذہبی تبلیغ کا کوئی سماجی پہلو بھی ہے؟ کیا مولانا اور ان کے مصاحبن یہ ہمت نہیں فرما سکتے کے اپنے لاکھوں چاپنے والوں کو یہ بتا سکیں کہ پاکستان میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم قائم نظام حکومت سمیت معاشی اور اقتصادی سرمایہ دارانہ نظام جبر، استحصال اور جھوٹ پر قائم ہے جس میں دولت کا ارتکاز ایک مخصوص طبقے تک محدود ہے اور موجودہ وبائی مرض کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران طبقاتی اور سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا کے انسانوں کو صحت کی سہولیات باہم پہنچانے میں ناکام ہو چکے ہیں؟
عقائد کا احترام اور مذہب سے عقیدت محترم مگر کیا موجودہ حکومت میں موجود سرمایہ دار اور جاگیردار اپنی زمینوں اور ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو عین شرعی اصولوں کے مطابق ماہانہ اجرت دے رہے ہیں؟ کیا مولانا یہ بھول گئے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا تھا:
مجھے مدینے کے ایک مزدور کی اجرت کے برابر معاوضہ دیا جائے۔ جس پر کسی نے کہا کہ اے خلیفۂ وقت کیا اس معاوضے میں آپ کا گزارا ہو جائے گا؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اگراس رقم میں میرا گزارا نہ ہوا تو میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا۔
مولانا شاید کسی بھٹے پر کام کرنے والی عورت کی برہنگی کو دیکھنے سے معذور رہے، جس کے لئے حیا کا لفظ بے معنی ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں موجود کم و بیش پچاس فیصد غربا کی خواتین دانستہ بے حیا نہیں ہو تیں لیکن یہ نظام انہیں ’بے حیائی‘ پر ضرور مجبور کرتا ہے۔
وبا، طوفان، زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے نتیجے میں قوموں کی لچک اور پھر سے منظم ہونے کی ہمت کا امتحان ہوتی ہیں اور اگر وبا کے دنوں میں نظام صحت میں موجود سقم اور کمی سامنے آئیں تو ریاست تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اس سقم اور کمی کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں عبادات مذہبی حوالے سے ضرور اہم ہیں مگر ملک کی مجموعی معاشی منصوبہ بندی، برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ منصوبہ بند معیشت بحیثیت مجموعی انسانی ترقی کے اہم اعشاریے سمجھے جاتے ہیں۔ بیماریوں سے نمٹنے کے لئے موجودہ طب کی سہولیات کوجدید ٹیکنالوجی سے لیس کرتے ہوئے عوام کو صحت کی سہولیات باہم پہنچائی جاتی ہیں۔ دواؤں اور ویکسینز کی تیاری کے لئے اس شعبے میں تحقیق کرنے والوں کو مناسب سہولیات دینے کے لئے بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ شومئی قسمت، پاکستان میں تعلیم اور تحقیق کو آج تک جی ڈی پی کا 4 فیصد بھی نہ مل سکا جب کہ اس کے متوازی بیشتر غیرپیداواری شعبے تعلیم اور صحت کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ بجٹ لے اڑنے میں کامیاب رہے۔
بدلتا عوامی شعور شاید اب دعاؤں میں تریاق کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے ایک حقیقی سائنسی دوا کا مطالبہ کرے اور بعد از وبائی معاشی اور اقتصادی بحران کی صورت میں دم دلاسے سے مطمئن نہ ہو سکے۔ معاشرے میں جب سچ بول کر ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں اور جھوٹ کے بازار کے تاجر کی دکان کی چکا چوند آنکھوں کو چندھیا رہی ہو تو سچ کے بیوپاری موت پر جھوٹ کو ترجیح دیں گے، اور جب غربت کے نام پر ٹی وی پر ایک رقت آمیز ٹکڑا ہی چلایا جائے گا تو روٹی کی تلاش میں سرگرداں محنت کش عورت کے لئے حیا کی اہمیت ثانوی ہوگی اور اسے فرق نہیں پڑے گا کہ اس کی بے حیائی سے وبائیں آتی ہیں کہ طوفان!