کرونا وائرس کی کوئی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت کی جا چکی ہے۔ اس کے خوردبینی جائزے سے دیکھا گیا ہے کہ اس نیم گول وائرس کے کناروں پر ابھار نظر آتا ہے جو عموماً تاج (کراون) جیسی شکل بناتے ہیں۔ اس لیے ان کو کرونا وائرس کا نام دیا گیا، کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔ کرونا وائرس اس وقت عالمی وبا بن چکا ہے۔ اس کی ترسیل کے تین بنیادی ذرائع ہیں۔
ترسیل بذریعہ نظام تنفس، جس میں چھوٹے قطرات ایک خاص فاصلے عموماً (ایک سے دو میٹر) سے حساس لعابی جھلی میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ترسیل بذریعہ رابطہ، جس میں قطرات کسی شے کی سطح پر جمع ہو جاتے ہیں۔ جب انسان اس آلودہ سطح سے رابطہ میں آتا ہے تو یہ انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ترسیل بذریعہ ایروسول، جس میں چھوٹے قطرات ہوا میں منتشر ہو کر ایروسول کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ہوا میں معلق ہوجانے کے بعد پھر کسی اور انسان کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ سرجیکل ماسک یا طبی حفاظتی ماسک استمال کیا جائے۔ روزمرہ زندگی میں اردگرد کے افراد سے دو میٹر سے زیادہ فاصلہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور کیا اس وائرس کے خوف سے ایک دوسرے سے مصافحہ بھی نہ کریں تو ایک حدیث میں سیدنا شرید ثقفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ وفدِ ثقیف میں ایک شخص کوڑھ کی بیماری میں مبتلا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے پیغام بھیجا کہ ہم نے تم سے بیعت کر لی ہے لہذا تم لوٹ جاؤ۔
اس حدیث کو امام مسلم نے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے اس شخص سے بیعت کے لیے مصافحہ نہیں کیا اور نہ اس کے سامنے آئے کیونکہ کوڑھ ایک وبائی بیماری ہے جو ملنے جلنے سے آگے منتقل ہوتی ہے۔
اہلِ علم کا یہ فیصلہ ہے کہ جب کوئی بیماری کافی پھیل جائے تو وہ لوگ جن کو بیماری لگ جائے ان کو چھوٹی اور جامع مسجدوں میں جانے سے روک دیا جائے تاکہ وبا مزید نہ پھیل سکے۔ ان احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ایسے حالات میں اسلام نے بھی لوگوں سے دور رہنے پر زور دیا ہے۔ بلکہ ان کو نماز جیسے عمل کو الگ پڑھنے کا حکم دیا جو عموماً حالات میں منع ہے۔
اب کچھ لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ کیا یہ وائرس عالمی وبا بن گیا ہے؟ ممتاز ماہرِ حیوانیات اور مصنف ڈاکٹر صلاح الدین قادری کے مطابق کسی بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں:
اول: وائرس کی نئی قسم کا ہونا
دوم: اس وائرس میں حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صلاحیت کا ہونا
سوم: انسان میں مرض پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنا
چہارم: انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے کی استعداد
اس تناظر میں کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے آچکی ہیں۔ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے (تقریباً دو سو)۔ اس وبا نے دنیا بھر میں اب تک دو لاکھ چالیس ہزار کے قریب لوگوں کو موت جیسی حقیقت سے ہمکنار کروا دیا ہے۔ صرف امریکہ جسیے ملک میں جو خود کو دنیا کی سپر پاور کہتا تھا، اس میں ساٹھ ہزار سے زیادہ اموت ہوچکی ہیں اور اس وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔
یہ وبا پاکستان میں بھی موجود ہے۔ اب تک کرونا وائرس کے 17 ہزار کے لگ بھگ مریض سامنے آچکے ہیں اور تین سو چالیس کے قریب پاکستانیوں کی اموات واقع ہو چکی ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان کا شمار ترقی پزید ممالک میں ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ وبا پاکستان میں کنٹرول سے باہر ہوگئی تو اس کے پاکستان کی معیشت پر بہت برے اثرات پڑیں گے۔
یہ وائرس کتنا مہلک ہے؟
چینی حکام نے کہا کہ وائرس سے شکار ہونے والے 4 فیصد افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے کرونا وائرس کی ہلاکت خیز شدت کم ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں انفیکشن امراض کے ماہر ڈاکٹر مارک وول ہاؤس اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاید یہ اوسط درجے کے انفیکشن اور سارس کے درمیان کی شدت رکھتا ہے جس سے زائد اموات ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وائرس خود کو مزید تبدیل کرلے تو شاید زیادہ مہلک ہوسکتا ہے۔ کیا اس مہلک وبا سے بچا جا سکتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں:
ہمیں بار بار صابن سے ہاتھ دھونا چاہیے۔
بیمار اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔
کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔
پالتو جانوروں سے دور رہیں۔
کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں، کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت نے جس طرح کی ہدایات دی ہیں وہ وضو سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہر طرح کی انفیکشن سے بچاؤ میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے حتی الامکان پاک صاف رہنے کی کوشش کریں اور بھیڑ والی جگہ جانے سے جس حد تک بچا جا سکتا ہے بچیں، کیونکہ یہ وائرس تب تک ہمارے گھروں میں نہیں آسکتا جب تک ہم خود اس کو لینے باہر نہ جائیں۔ لہذا گھر پر رہ کر خود بھی محفوظ رہیں اور گھر والوں کو بھی محفوظ رکھیں۔