ساجد حسین 2012 میں پاکستان سے فرار ہو گئے تھے جب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں پر رپورٹنگ کے باعث پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے گھر والوں سے پوچھ گچھ کی تھی۔ انہیں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو دیکھتے ہوئے پولیس کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کو قتل کیا گیا ہو، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے خودکشی کی ہو یا یہ محض ایک حادثہ ہو۔ تاہم، چونکہ جرم کا امکان مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا، فی الحال یہ ممکنات میں سے ہے کہ ان کی موت کا تعلق بطور صحافی ان کے کام سے ہی ہو۔
ساجد حسین بلوچستان کے اخبار بلوچستان ٹائمز کے مدیرِ اعلیٰ تھے۔ وہ اس آن لائن میگزین کے بانی بھی تھے اور بیرونِ ملک رہتے ہوئے بھی اس ویب سائٹ کو تاحال چلا رہے تھے۔ وہ منشیات کے کاروبار، جبری گمشدگیوں اور بلوچستان میں برسوں سے جاری علیحدگی کی تحریک پر رپورٹنگ کرتے رہے تھے۔
پاکستان میں صحافیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی ہفتے شائع ہونے والی پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2019-20 کے مطابق گذشتہ ایک برس میں پاکستانی صحافیوں کے حقوق کی 92 شدید خلاف ورزیاں ہوئیں جن میں سے 25 فیصد میں قتل کی دھمکیاں دی گئیں، اور ان میں سے 11 مرتبہ صحافیوں پر قاتلانہ حملے ہوئے بھی ہیں اور سات صحافی وقعتاً قتل بھی ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ میں دو انتہائی اہم نکات ایسے بیان کیے گئے ہیں جو کہ مسئلے کی اصل جڑ تک پہنچنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ملک کا دارالحکومت، اسلام آباد، صحافیوں کے لئے سب سے زیادہ خطرنات علاقہ ہے۔ رپورٹ میں رقم کیے گئے کل واقعات میں سے 34 فیصد اسلام آباد میں پیش آئے۔ اسلام آباد ملک کا محفوظ ترین شہر تصور کیا جاتا ہے اور جب ریاستی ادارے بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف ملک میں بڑی کامیابیاں حاصل کی جا چکی ہیں تو یہ خاصہ واضح ہے کہ صحافیوں پر حملے کس جانب سے کیے جا رہے ہیں۔
اور اگر یہ حقیقت بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ناکافی ہو تو اس دوسرے نکتے میں بات اور بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، جس کے مطابق 42 فیصد واقعات میں صحافیوں کو دھمکیاں ریاستی اہلکاروں کی جانب سے ہی دی گئی ہیں۔
آج 3 مئی ہے۔ آزادی صحافت کا عالمی دن۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ساجد حسین کی موت کی خبر بھی آزادی صحافت کے عالمی دن سے محض دو دن پہلے سامنے آئی ہے۔ 9 سال قبل یہی مئی کا مہینہ تھا جب ایک اور صحافی سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے نامعلوم افراد کے ساتھ جاتے دیکھا گیا اور پھر ان کی لاش منڈی بہا الدین میں ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرّحمٰن ایک 30 سال پرانے زمین کی لین دین کے معاملے پر بنائے گئے مقدمے میں قومی احتساب بیورو کی زیرِ حراست ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ، عالمی صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے میر شکیل کے حق میں آواز اٹھائی گئی ہے لیکن تاحال انہیں رہا نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو بڑی تعداد میں چینلوں سے نکلوایا جا چکا ہے۔ اس سال کے آغاز میں حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے کی ایک مذموم کوشش بھی کی گئی۔ لیکن عالمی انٹرنیٹ جائنٹس کے آگے ٹھہر نہ سکی اور یہ مجوزہ قانون حکومت کو واپس لینا پڑا۔ کرونا وائرس کے دوران ہی وزیر اعظم کے چندہ جمع کرنے کے لئے منعقد کیے گئے ایک ٹیلی تھان میں ان کے پسندیدہ مولوی مولانا طارق جمیل نے میڈیا کو جھوٹا قرار دیا، اس کے اگلے ہی روز وزیر اعظم سے ’یوٹیوب صحافیوں‘ کی ملاقات میں میڈیا کے حکومت مخالف خبریں چلانے پر پہلے شرکا کی جانب سے تنقید کی گئی اور پھر وزیر اعظم نے بھی میڈیا ٹاک شوز کے لئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
گو کہ ہماری حکومتوں کے رویے کسی بھی دور میں جمہوری نہیں رہے، تحریک انصاف حکومت میں صحافتی آزادیوں کو جس بری طرح مسلا گیا ہے، اس کی مثال پاکستانی کی تاریخ میں بھی کم کم ہی ملتی ہے۔ حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر میڈیا کو قابو کرنے کے چکر میں تنقیدی آوازوں کو دبایا گیا تو یہ جمہوریت کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوگا اور جمہوریت میں سب سے بڑا سٹیک کسی اور کا نہیں، خود حکومتِ وقت ہی کا ہوتا ہے۔