یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم پنجابی کے قتل کو جشن کے طور پر منائیں؟ مطلب انسانیت کی بھی آخری حد عبور نہ کرلی ہو، تب بھی ایسا سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے؟
میں اپنے پچھلے کالموں میں اس بات کا ذکر بارہا کر چکا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر مجھے پارٹی کی جانب سے کس طرح کے ردعمل کا سامنا تھا۔ تفصیلات کے لئے میرے پچھلے کالموں کو پڑھیے۔ یہ باتیں میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں یہ جانتے ہوئے کہ بلوچستان میں آج تک جس صحافی نے سچ بولا، وہ چاہے لیاری میں بھی پایا گیا، مار دیا گیا۔
یہ انہونی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج تک بلوچ کی اصل آواز کو سنا ہی نہیں گیا۔ سُنا کیسے جاتا؟ بولتے ہی چُپ جو کروا دیا جاتا ہے۔
ایک طرف ریاست تو دوسری طرف علیحدگی پسند، تیسری جانب وہ عام بلوچ عوام جس کو گاجر مولی سمجھ کر دونوں جانب سے نسل در نسل کاٹا جا رہا ہے۔ صحافی ریاستی بولی بولے تب بھی خطرے میں ہے، ریاست سیکیورٹی کب دیتی ہے؟ اور کیا دے سکتی بھی ہے؟ غیر ریاستی علیحدگی پسندوں کی حمایت کرے تب بھی مارا جائے گا۔ عوام کی آواز بننا سرداری جاگیرداری ماحول میں تو یوں بھی سزائے موت سے کم سزا والا جُرم ہے ہی نہیں۔
بلوچ صحافی کرے تو کیا کرے؟ کیا عام بلوچ کا قتل یونہیں نسلوں چلتا ہی رہے گا؟
مغیر احمد شاہ کو 2011 میں خضدار میں اٹھا لیا گیا اور پھر بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش کو پریس کلب کے دروازے پر پھینک دیا گیا۔ اب آپ ہی جواب دیں، بظاہر یہ پیغام کس کا اور کس کو ہو سکتا ہے؟ بظاہر ہی کہہ سکیں گے نا، آج تک کسی بھی صحافی کے قتل کا پتہ لگ سکتا ہے کہ اس کا خون کس کے ہاتھ ہے؟
بلوچستان معمے میں آج تک اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لئے تین ہی سوال بہت اہم ہیں۔ مارا کس نے ہے، مارا کیوں گیا، عام آدمی کی آواز اٹھانے والے کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا؟
اس کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب میں نے آزادی پسندوں کی مار دو، تباہ کردو پالیسی کا بغور مشاہدہ کیا۔ جن مسنگ پرسنز کا یہ باہر کے ممالک میں ڈھول پیٹتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسنگ پرسنز کے لئے ہزاروں آوازوں میں ایک میری آواز بھی ضرور ہوتی ہے۔ مگر یہ خلاف اصول ہے کہ آپ کسی کی آواز بن رہے ہوں اور ان کا آپ کو پتہ ہی نہ ہو کہ نام کے علاوہ کوئی بھی دوسری شناخت ہو۔ مجھے تو یہ بھی خدشہ ہے کہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ان درندوں نے کچھ معصوم بلوچ تو خود اغوا کر کے مار دیئے ہوں گے جن کا ڈھول یہ یہاں پیٹ رہے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ بات صرف میں نہیں پارٹی کے بےشمار عہدیدار کہتے سُنے گئے ہیں تو کتنے لوگوں کو یہ پنجابی غدار یا آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہہ کر نکالیں گے؟ کچھ تو ان کی بالکل بغل میں براجمان ہیں۔
کچھ دن پہلے میں نے عاطف کی ویب سائٹ متبادل پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا تو اس کو وہاں تنقید کا سامنا رہا۔ یہی نہیں غداری کا سرٹیفیکیٹ بھی تھما دیا گیا۔ اور یہ کہ جب تک شُبھ شُبھ تب تک آپ ہی مسیحا، جہاں اختلاف کا پہلا نقطہ ڈل گیا، وہیں آپ آئی ایس آئی کے حاظر سروس افسر بن گئے۔
میں یہ اپنی تحریروں میں بار بار کہہ بھی رہا ہوں۔ میں آج بلوچستان یا کراچی میں ہوتا تو ان کے جبر کا نشانہ بن چکا ہوتا۔ چونکہ میں وہاں نہیں ہوں اب ان کے ہاتھ قدرے بندھے ہوئے ہیں۔ اب یہ سوشل میڈیا پر ہی غصے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ براہمداغ سمیت تمام وہ لوگ جن کی اصلیت میں نے عوام کے سامنے لانی شروع کی تو مجھے سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میرا فیسبُک اکاؤنٹ ان کے حلقوں کی جانب سے رپورٹ کروایا گیا جس کے بعد میں ایک ہفتے کے لئے فیسبک پر کچھ بھی نہیں کر سکا۔ ٹوئٹر میرے پاس آواز اٹھانے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی نہیں یہاں جرمنی میں آئے دن میرے لئے مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کے مسئلے کو سمجھنا آپ کے لئے بہت آسان ہو جانا چاہیے۔ میں بھی اسی طبقے کا سوال کرتا ہوں جس سے کہ میں خود ہوں اور جس طبقے کو براہمداغ جیسے لوگ آزادی کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ بلوچ آزاد نہیں بلکہ ان سرداروں کا محکوم ہی رہے گا۔ آزاد یہ ہوں گے اپنی الگ دُنیا قائم کر کے۔ ہمیں تب بھی ان کا محکوم ہی رہنا ہے۔ ریاست نے کبھی سرداروں سے نکل کر عام بلوچ کی آواز سُننا پسند ہی نہیں کی۔ وہ عام بلوچ جو اس لڑائی میں دونوں طرف سے مارا جا رہا ہے، جس کو نہ سکون سے جینا میسر ہے اور نہ سکون سے مرنا۔