نوجوان نسل کے نزدیک محبت کا مطلب دکھی نغمہ یا شعر رہ گیا جو بریک اپ کی صورت میں وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر لکھا کرتے ہیں۔ محبت عمیرہ احمد اور نمرہ احمد اور ان جیسے دیگر مصنفین کے ناولز کا نام بھی نہیں جن میں مذہبی عقائد اور جذبات کا سہارا لے کر محبت کو ایک عجیب و غریب ہی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ محبت پاکستانی ٹی وی ڈراموں کا نام نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستانی فلموں کا نام محبت ہے۔
محبت محبوب اور محب کے درمیان اس احساس کا نام ہے جس کا ادراک ان دونوں کے سوا کسی کو نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے کیونکہ محبت میں محبوب او محب کے علاوہ کسی تیسرے کی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔ محبت میں تنقید بھی ہوتی ہے، سوال بھی ہوتے ہیں اور ان کے جواب بھی دینے پڑتے ہیں۔ محبت صرف محبوب کے سامنے سر خم کرنے کا نام بھی نہیں ہے۔ محبت میں اختلاف رائے کا حق ہوتا ہے۔ اگر آپ کی محبت آپ کو اختلاف رائے کی اجازت نہیں دیتی تو وہ محبت نہیں غلامی کہلاتی ہے۔
محبت چاند اور ستارے توڑ کے لانے، ایزی لوڈ کروانے، برقعہ پہنوانے، سوشل میڈیا پر اظہار اور ڈیٹ پہ جانے کا نام بھی نہیں ہے۔ بلکہ محبت ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنے، ایک دوسرے کو سمجھنے ایک دوسرے کی تکلیفوں کو آسودگیوں میں بدلنے یا بدلنے کی کوشش کا نام ہے۔ محبوب کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جانا، بڑے ہوٹل میں کھانا کھانا یا کافی پینا، روزانہ رات کو فون پر بات کرنا مجبت کی شرائط نہیں ہیں۔ محبت تو پیدل چل کے بھی نبھائی جاتی ہے، گھر کا کھانا کھا کے بھی نبھائی جا سکتی ہے۔ محبت وہی ہے جو آپ کو اس خاص انسیت کے جذبے سے متعارف کروائے جس میں ایک دوسرے کے لئے ایک دوسرے کی مرضی کے علاوہ اپنی مرضی سے بھی جینے کے ساتھ بہتر سے بہتری کی طرف چلنے اور اس منزل تک جانے کا نام ہے جس پر پہنچ کر محبوب اور محب مطمئن ہوں اور انہیں اس خوشی کا احساس ہو کہ انہوں نے صرف محبت نہیں کی بلکہ اس کو نبھایا اور واقعی پایا ہے۔
مخصوص دِلوں کو عِشق کہ الہام ہوتے ہيں
محبت معجزه ہے اور معجزے کب عام ہوتے ہيں
نوٹ: اس بلاگ کا مرکزی خیال استاد محترم اور مرشد محترم جناب عثمان شاہد کے بلاگ ’’عشق چاند کے ٹکڑے کا افسانے‘‘ سے مستعار لیا گیا ہے۔