مثال کے طور پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ کے 30 افسران کو سپر سیڈ کیا گیا جبکہ ان لینڈ ریوینیو گروپ کے تین بہترین افسران کو چھوڑ کر ایسے افسران کو پروموٹ کیا گیا ہے جن کی کارکردگی بد ترین ہے۔ اس میں ڈاکٹر اشفاق احمد تونیو کا کیس سر فہرست ہے جن کی پی ای آرز بہترین ہیں۔ انہیں فیلڈ سمیت ٹیکس اور آڈٹ کا وسیع تر تجربہ ہے۔ بطور ڈی جی انٹرنل آڈٹ انہوں نے 6 ماہ میں 1300 ارب سے زائد مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی اسی طرح ماضی میں بھی وہ سپر پرفارمر رہے ہیں۔
تاہم ان کے مقابلے میں ایسے افسران جن کی پرفارمنس تو کچھ خاص نہیں رہی مگر انکے تعلقات بہترین رہے ہیں انہیں من پسند آسامیوں پر دل چاہی مراعات کے ساتھ تعینات کیا گیا جن میں سے ایک مس سیما شکیل ہیں جن کے کراچی میں تعیناتی کے دوران ٹیکس اہداف میں 20 فیصد کا خسارہ آیا تھا۔ انہیں اس حوالے سے سائڈ لائن بھی کیا گیا لیکن چھے ماہ میں وہ ممبر آئی آر بننے میں کامیاب ہو گئیں جو چئیرمین ایف بی آر کے بود سب سے اہم آسامی ہے۔ تاہم انہوں نے یہاں بھی بہت ہی بڑی تباہی پیدا کی اور اایف بی آر نے 1500 ارب کا ٹیکس شارٹ فال دیا۔
اس صورتحال پر بیوروکریسی میں بے چینی ہے اور نیا دور کو ذرائع نے بتایا ہے کہ متاثرہ بیوروکریٹس اس معاملے پر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے حوالے سے تیاری کر رہے ہیں۔