وزیراعظم عمران خان نے ملک کے 2 کروڑ خاندانوں کے لیے آٹا، دال اور گھی پر 30 فیصد تک ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے 120 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکج سے کون اور کیسے مستفید ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں وفاقی حکومت نے ایک جامع پلان ترتیب دیا ہے۔
کابینہ میں پیش کی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے کمزور طبقہ بہت متاثر ہوا، اس وجہ سے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ جنرل سبسڈی کو ختم کرے، اسی وجہ سے حکومت نے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
120 ارب روپے کے پیکج کو اگر 22 کروڑ کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو اس کا فائدہ کم ہوگا کیونکہ اس سے وہ لوگ بھی مستفید ہوں گے جن کو سبسڈی کی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی کی وجہ سے حکومت 30 فیصد تک سبسڈی دینے میں کامیاب ہوئی ورنہ یہ دو فیصد تک ہی ہوسکتی تھی۔
ٹارگٹڈ سبسڈی ایک قسم کا تقویت الاؤنس سے ہے جو آبادی کے ایک مخصوص حصے کو اس لیے دیا جائے گا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے اور اس سے کم آمدن والوں کو وقتی ریلیف دینا ہے۔
نیشنل بینک نے وزارت تخفیف غربت کے ساتھ مل کر ایک ڈیزائن ترتیب دیا ہے۔ اس کے تحت ملک بھر کے یوٹیلٹی سٹورز اور منتخب شدہ کریانہ سٹور احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ افراد کو اشیائے خورونوش جن میں آٹا، دال اور گھی شامل ہیں پر 30 فیصد کم قیمت پر دیں گے۔
اس سلسلے میں خاندانوں کو ڈیجیٹلی طور پر رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ جب بھی کوئی خاندان خریداری کرے گا تو اس کی ٹرانزیکشن بھی ڈیجیٹل طریقے سے ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک ہزار روپے مالیت کا آٹا، دال اور گھی خریدتا ہے تو اسے 700 روپے ادا کرنا پڑیں گے جبکہ 300 روپے سرکاری خزانے سے دکاندار کو مل جائیں گے۔
احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام کے تحت ہر خاندان کو چھ ماہ تک ماہانہ ایک ہزار روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ وہ ایک ماہ کے دوران تین اشیائے خورونوش خریدیں گے تو ان کی قیمت اگر تین ہزار ہوگی تو انہیں دو ہزار ادا کرنا پڑیں گے جبکہ ایک ہزار روپیہ سرکار دے گی۔ یہ ایک ہزار روپے کا ریلیف صرف ان خاندانوں کو ملے گا جن کی ماہانہ آمدن 31 ہزار 500 روپے سے کم ہوگی۔