پروٹوکول کا ایک جمِ غفیر ان تینوں اہم شخصیات کے ہمراہ تھا۔ کوئی 25 بلٹ پروف گاڑیوں میں شوبز کا باورچی جیلا بلیڈ آیا۔ جیلے کی وجہ شہرت یہ ہے کہ پائے کی کٹنگ ٹریٹ بلیڈ سے کیا کرتا تھا جس کی وجہ سے ذائقہ ایسا آتا کہ کھانے والا انگلیاں چاٹتا رہ جاوے۔
قریب اتنی ہی گاڑیوں کی بارات کینیا کا راؤ انوار بھی لایا جس کا نام ٹرانسپیرنٹ ہیری تھا۔ یو این کے ڈائریکٹ حوالدار کا نام لوبان کی دھون تھا۔ پڑھنے والے شاید اس مخمصے میں پڑ جاویں کہ کہیں یہ بان کی مون کا بھائی تو نہیں؟ تو ایسا کچھ نہیں۔ اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ملزموں کو ننگا کئے بغیر لوبان کی دھونی دے کر سب کچھ اگلوا لیتا تھا۔ یہ پندرہ بلیلہ، بیس ہنڈا 50 جس میں کبھی اپنے الطاف بھائی سیر کیا کرتے تھے اور سو دو سو کے قریب سہراب سائیکل پر سوار محافظوں کے ہمراہ نمودار ہوا جو خطرنا ک ترین اسلحے یعنی نیل کٹر کے چاقو (جو اپنے حسنات بھائی ہمیشہ پاس رکھا کرتے تھے) سے لیس تھے۔
قلندر کو صرف ایک ہی فکر تھی کہ یہ سارا ٹبر بغیر بتائے آ گیا۔ اگر اس کا روٹی پانی لنگر سے کیا تو مرید اور غربا بھوکے رہ جاویں گے۔ اس کے علاوہ ایک نسبتاً چھوٹا مسئلہ بھی تھا۔ ان دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے۔ لہٰذا ان سے ایک ساتھ میٹنگ کرنے کا مطلب تھا فساد فی سبیل اللہ!
لیکن قلندر بھی پہنچی ہوئی چیز تھا۔ ہر مسئلے کا حل پلک جھپکتے نکال لیتا۔ پروٹوکول کے تمام مشٹنڈوں کو تو اس نے پاٹے خان کے لانگ مارچ میں بھیج دیا، یہ کہہ کر کہ وہاں دنیا کی بہترین بریانی ان کی منتظر ہے۔ یہ وہی بریانی ہے جس کو دم لگتے ہی فوڈ اتھارٹی والے آن دھمکتے ہیں سینکڑوں من کتے کے گوشت کی برآمدگی ڈالنے۔ دراصل حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے پاٹے خان کو سبق سکھانے واسطے۔ اس برآمدگی کا واحد مقصد یوتھیوں کو لانگ مارچ سے دور رکھنا تھا۔
اب رہ گئے صرف تین تو ان کی روٹی پانی لنگر پر بوجھ نہ تھی۔ تینوں کو الگ الگ کمروں میں ڈالا اور سب سے پہلے جیلے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
'کیوں بے۔ سب ریسیپیاں میری فالو کرتا ہے اور کریڈٹ خود کو دیتا ہے۔ تجھے تو یہ بھی نہ معلوم نہ تھا کہ قورمے میں ٹماٹر اور نہاری میں پیاز نہیں ڈالا جاتا۔ بنا ہے شاہی بھٹیارا پھرے ہے اتراتا! بک کیسے آیا ہے؟' قلندر نے آتے ہی جیلے کی طبعیت صاف کی۔ جیلا قلندر کے پیروں میں گر گیا۔
'سرکار معاف کر دیں۔ جو بھی ہے آپ ہی کی دین ہے۔ اپنے لئے نہیں آیا۔ شوبز بھائی بری طرح پھنس گئے ہیں۔ ارشد کے قتل کی تحقیقات کے واسطے کمیشن تو بنا دیا شب بھر میں پر خزانہ تو برسوں سے خالی ہے۔ ایکسپرٹ اور کمیشن ممبران کی فیس کے پیسے تک نہیں۔ اب چین جا رہے ہیں ادھار مانگنے۔ پتہ نہیں کچھ لے کر آتے ہیں یا خالی ہاتھ۔ مجھے بھیجا ہے آپ کے پاس۔ اس سمسیہ کا کچھ اپائے کیجیے۔'
'وہ خود کیوں نہیں آیا، بہت بڑی چیز بن گیا ہے کیا؟ کیا خوب بیان دیا اپنے شیدے ٹلی نے کہ محض سی ڈی اے کا وزیرِاعظم ہے۔ بنی گالا کی طرف جاوے ہے تو حکومت ختم۔ ترنول کی طرف جائے تو ختم۔ فیض آباد سے آگے جاوے تب بھی ختم۔' قلندر بولا۔
'حجور وہ آپ ہی کے ماننے والے ہیں۔ خود آنا چاہتے تھے لیکن ڈر تھا کہ کہیں لانگ مارچ کے شرکا کے ہتھے نہ چڑھ جاویں اور وہی حشر کروا لیں جو پاٹے خان کا 2007 میں جماعتیوں نے پنجاب یونیورسٹی میں کیا تھا۔' جیلا وضاحتیں دینے لگ گیا۔
'ابے بکواس بند کر سالے!
Where there's a will there's a way!’
قلندر کو فرنگی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ کیوں نہ ہوتا۔ آخر شیکسپیئر کا استاد تھا جسے اپنے یوسفی صاحب شیخ پیر لکھا کرتے تھے 'آب گم' میں۔ شیکسپیئر کا باپ بھی قلندر کا مرید تھا۔
'شوبز مولانا عبدالعزیز کی طرح برقعے میں بھی آ سکتا ہے۔ پاٹے خان کی طرح رات کی تاریکی میں بھی آ سکتا تھا۔ میری Vintage Toyota Cressida کی ڈگی میں تو اس جیسے دو آرام سے آ سکتے تھے۔' قلندر بولا۔ 'چل دفعان ہو یہاں سے۔ پچیس بلٹ پروف گاڑیوں میں تو اس کا باورچی پھرتا ہے۔ ذرا سادگی اختیار کرے تو خزانہ اتنا بھر جاوے کہ الٹا آئی ایم ایف ہماری مقروض ہو جاوے اور قرقی کا ڈھول ہم بجا رہے ہوں ڈی سی میں اس کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے۔'
ایک تو بھگتایا قلندر نے۔ اس کے بعد نمبر آیا کینیا کے ٹرانسپیرنٹ ہیری کا۔ یہ بیچارہ بڑا پریشان تھا۔ کہنے لگا اس کی سرکار نے لائن حاضر کر دیا ہے۔ اب کمیشن بھی بن چکا ہے۔ ادھر پاٹے خان کے یوتھیئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یو این کی ٹیم آوے جیسے بے نظیر کے ٹیم پے آئی تھی اور تحقیقات کرے۔ یو این کی رپورٹ کی روشنی میں تو اس کی نوکری جاوے ہی جاوے۔ حل کی تلاش اسے قلندر کے پاس لے آئی۔
قلندر کو یہ بچہ معصوم لگا۔ 'فکر نہ کر بالک۔ ہمارے ہوتے تیری نوکری پر کوئی حرف نہ آوے گا۔ آستانے کو چندہ دے کر ہر گناہ کبیرہ و صغیرہ، کردہ اور ناکردہ سب معاف کر والے۔'
'حجور وہ تو میں نے آنے سے پہلے ہی ہنڈی کر دیا تھا۔ یہ دیکھیے رسید۔' قلندر خوش ہو گیا۔ ٹھیک ٹھاک رقم تھی۔ چل اب تو جا۔ لنگر تیار ہے۔
'اب رہ گیا یہ چول یو این یا۔ اس کا بھی پانی اتارتا ہوں۔' قلندر منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اس کمرے میں سدھارا۔
'کیوں بے تیری پوچھل پہ کس نے پیر رکھا جو یہاں مرنے آ گیا؟'
'حجور بڑا نام سنا ہے آپ کا۔ یو این کی ٹیم میری سربراہی میں اسلام آباد ارشد شریف کے قتل سے پہلے ہی پہنچ گئی تھی۔ سب کرداروں سے ملاقات کر چکی ہے۔ کوئی کھرا نہیں لبھ رہا۔ ہیڈ کوارٹر کس منہ سے جاوے گا غالب!'
'ہوں تو تو نے اپنے مرجا غالب کو پڑھ رکھا ہے۔ موگیمبو خوش ہوا۔ مجھے پتہ تھا کہ کھرا نہیں لبھنے والا۔ اسی لئے میں نے ایک زبردست رپورٹ پہلے ہی تیار کرلی تھی۔ یہ لے۔ اسے اپنے ہیڈ کوارٹر نیو خان کوچ سے بھیج دے اور ساتھ ہی پریس کانفرنس کر لے۔ بلکہ ایک گھنٹہ ٹھہر تو سارے جہاں کا میڈیا میرے آستانے پر آنے ہی والا ہے مجھ سے انٹرویو کرنے۔ اس کے بعد میں انہیں تیرے پیچھے لگا دونگا۔' قلندر بولا۔
'سرکار بہت بہت شکریہ۔ لیکن یہ کیا ہے؟' یو این یا رپورٹ کے اوراق جلد بازی میں پلٹتے ہوئے بولا۔
'ابے یہ حلیم ہے تاریخی کمیشنوں کی رپورٹوں کا، ملکی اور غیر ملکی دونوں۔ مثلاً جان ایف کینیڈی کمیشن رپورٹ، لیاقت علی خان کمیشن رپورٹ، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، بے نظیر بھٹو کمیشن رپورٹ، سلیم شہزاد کمیشن رپورٹ، حامد میر کمیشن رپورٹ وغیرہ وغیرہ۔ باقی حالات، واقعات، بیانات، مفروضات، معروضات، مشاہدات، فرمودات، بکواسیات سب ایک ہی ہیں۔ یہ تِیر بَہَدَف نسخہ ہے۔ تو بس تاریخ، نام اور مقام والے خانوں میں ارشد شریف یوتھیا لکھ دیجیو۔ ایک اور تاریخی رپورٹ معرضِ وجود میں آ جاوے گی۔' قلندر بولا۔
'بہت بہت شکریہ حجور۔ یہ تحفہ تھا آپ کے لئے۔۔۔۔ حقیر سا۔ امید ہے آپ کو پسند آوے گا۔۔۔' یو این یا بولا۔
'ابے کیا ہے اس میں؟' قلندر نے پوچھا۔
'سرکار ایک عدد رولیکس گھڑی، کچھ کف لنکس اور کچھ انگوٹھیاں ہیں بھابھی کے لئے!' یو این یا بولا۔