اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کو جلسہ اور دھرنے کی اجازت نا دینے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔ اسلام آباد انتظامیہ کو نوٹس کے باوجود کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی سول کورٹ ہے؟ یہ ہائی کورٹ ہے، پیش ہوں،عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو فوری طلب کرلیا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنے 25 مئی کے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسارکیاکہ کیا سپریم کورٹ کا آرڈر ہے؟بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہاکہ یہ عمران خان کا سپریم کورٹ میں جمع جواب ہے،ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے، یہ آدھے گھنٹے میں اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ عمومی طور پر جلسوں کی اجازت سے متعلق کیا طریقہ کار ہے؟
جس پر بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ ہوتا تو یہی ہے کہ پارٹی کی اجازت ہی سے یقین دہانی کرائی جاتی ہے، تاہم اس سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے جو ریلی کی گئی تھی اس سے نقصان ہوا تھا۔ پولیس والے زخمی ہوئے تھے۔
عدالت نے کہا کہ وکیل جو بھی بات کرتا ہے، وہ کلائنٹ کی طرف ہی سے کرتا ہے، کیا انہیں جلسے کے لئے وہی جگہ دی جارہی ہے جس کی انہوں نے اجازت مانگی تھی، جس پرایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کی خلاف ورزی کی ہے، ہم ان پر اعتماد نہیں کر رہے ۔ 2 سینئر وکلا کی یقین دہانی کو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے ماننے سے انکار کردیا۔ اس لئے ہم نے ٹی چوک کی جگہ مخصوص کر دی ہے، جلسہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
وکیل بابراعوان نے کہاکہ علی اعوان تحریک انصاف کا حصہ ہیں، انہوں نے ہی یہ پٹیشن فائل کی، وہ اس کے ذمہ دار ہیں، جو معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے، اس پر نہیں بولنا چاہئے نہ بول رہا ہوں، ٹی چوک جی ٹی روڈ ہے جو ریڈزون پہلے تھے اس کو اسی دوران بڑھا دیا ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا کہتے ہیں جو جگہ آپ کو یہ دیں وہاں وہ نہیں ہوگا جو پہلے ہوا، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کون اس کی ذمہ داری لے گا، بابراعوان نے کہاکہ پارٹی اس کی ذمہ داری لے گی۔
جہانگیر جدون نے کہاکہ عمران خان سے رابطہ ہونے تک ہم ان پر اعتماد نہیں کر سکتے بیان حلفی پر چیئرمین پی ٹی آئی کے دستخط ہونے چاہئیں،ہمارا بندہ ان کے پاس چلا جائے گا۔عدالت نے کہاکل آپ نے یہاں کہا6 ،7 تاریخ ہے، پھر کچھ اورکہا،تاریخ کے حوالے سے آپ نے واضح ہونا ہے، جہانگیر جدون نے کہااب تو یہ بھی کہہ رہے ہیں،10 ماہ تک رہیں گے، مقررہ تاریخ انہوں نے بتانی ہے۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے احکامات میں احتجاجی ریلی کی حدود و قیود مقرر کی ہیں، جو عوام کے تحفظ کے لیے ہے، آپ کو جو بھی مقام دیا جائے، یقین دہائی کرائیں، امن وامان برقرار رکھیں گے، کسی کو اس کی ذمہ داری لینی ہوگی، ایسا نہ ہوکہ کہا جائے، لاہور یا کراچی والوں نے ایسا کیا، خیال رکھیں گے روڈز بلاک نہ ہوں، لوگوں کو مشکلات نہ ہوں ، احتجاج آپ کا حق ہے لیکن شہریوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
پی ٹی آئی وکیل بابراعوان نے کہا کہ پی ٹی آئی ریلی 10 نومبر کے آس پاس پہنچے گی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اردگرد کی بات نہ کریں آپ نے واضح بتانا ہے ۔
عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔