پاکستان میں سیاسی شخصیات پر حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے

04:22 PM, 3 Nov, 2022

سدرہ سیّد
آج وزیر آباد میں اولڈ کچہری چوک پر لانگ مارچ میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان فائرنگ سے زخمی ہو گئے۔ فائرنگ سے مجموعی طور پر 9 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جب کہ تحریک انصاف کے ایک کارکن کے جاں بحق ہونے کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ 1947 کے بعد سے اب تک کئی نامور سیاسی شخصیات پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں سے چند ان حملوں میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی کڑی کا اگلا نشانہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں جن پر آج قاتلانہ حملہ ہوا۔ جب کہ انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی موصول ہو رہی تھیں۔

16 اکتوبر 1951 کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قاتل کو بھی موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ملکی سیاست کی ایک اور نامور شخصیت، سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پاکستان کے جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں ایک متنازع ٹرائل کے بعد راولپنڈی میں پھانسی دی گئی۔ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دینے کے 9 سال بعد جنرل ضیاالحق طیارے کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

چوہدری ظہور الٰہی کو 25 ستمبر 1981 کو لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ چوہدری ظہور الٰہی ملک کے صف اول کے سیاسی رہنما اور ضیاالحق کی کابینہ میں وزیر محنت و افرادی قوت رہ چکے تھے۔

3 اکتوبر 1991 کو خیبر پختونخوا کے سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، سابق گورنر اور وزیراعلیٰ، جنرل فضل حق پشاور میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہوئے تھے۔

29 ستمبر 1993 کو سابق وزی راعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو میاں چنوں میں انتخابی مہم کے دوران فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے بڑے صاحبزادے اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996 کے دن کراچی میں ایک پولیس کارروائی میں سرعام قتل کر دیا گیا۔

سابق گورنر سندھ، سماجی شخصیت اور طبی محقق حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

3 جنوری 1999 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ ان کی خاندانی زمینوں کی طرف جانے والے راستے میں موجود پل پر ان کے قتل کے ارادے سے بم نصب کیا گیا، کچھ مصروفیات کی بنا پر ان کو نکلنے میں تاخیر ہو گئی جس کی وجہ سے وہ حملے کا شکار نہیں ہوئے۔ اس وقت پاکستان میں لشکرِ جھنگوی کے خلاف آپریشن جاری تھا۔

سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ صادق خان کانجو کو جولائی 2001 میں قتل کر دیا گیا۔

6 اکتوبر 2003 کو کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی مولانا اعظم طارق کو کشمیر ہائی وے اسلام آباد پر قتل کر دیا گیا۔ وہ سیاست کی ایک متنازع شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔

14 دسمبر 2003 کو سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے قافلے پر راولپنڈی میں خود کش حملہ کیا گیا۔ تاہم، وہ حملے میں محفوظ رہے۔ 25 دسمبر کو ایک بار پھر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تاہم، وہ اس بار بھی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ اس سے قبل 26 اپریل 2003 کو پرویز مشرف کو پہلی بار کراچی کی شاہراہ فیصل پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، دہشتگردوں نے شاہراہ فیصل پر ایسی جگہ پر ایک کھڑی گاڑی کو بم دھماکے سے اُڑایا جہاں سے جنرل مشرف کا قافلہ گزر رہا تھا۔

30 جولائی 2004 کو پاکستان کے نامزد وزیر اعظم شوکت عزیز پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے لیکن ان کے ساتھ موجود 6 افراد حملے میں ہلاک ہو گئے۔

2 اگست 2004 کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی لیکن وہ محفوظ رہے۔

18 اکتوبر 2007 کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو پر خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آتے ہی قاتلانہ حملہ کیا گیا، جب ان کے استقبال کے لئے پیپلز پارٹی کارکنان اور عوام کا مجمع لگا ہوا تھا۔ اس دوران مجمع میں دو دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 180 سے زائد لوگوں کی اموات ہوئیں جب کہ 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ بینظیر بھٹو اس حملے میں محفوظ رہی تھیں۔

27 دسمبر 2007 کو دو بار ملک کی وزیر اعظم رہ چکی بینظیر بھٹو کو 15 سالہ خود کش حملہ آور نے قتل کر دیا۔ اس وقت بینظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں جب حملہ آور ان کی گاڑی کے قریب گیا، پہلے انہیں گولی ماری اور پھر اس کے بعد خودکش دھماکے سےخود کو اڑا لیا۔

اگلے روز، 28 دسمبر 2007 کو مسلم لیگ ق کے سابق وزیر اسفندیار عامر زیب بم حملے میں قتل ہو گئے۔

25 اگست 2008 کو عوامی نیشنل پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی وقار احمد کے بھائی اور دیگر اہلخانہ کو ان کی سوات کی رہائشگاہ پر راکٹ حملہ کر کے قتل کر دیا گیا۔

2 اکتوبر 2008 کو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفندیار ولی خان پر ولی باغ چارسدہ میں قاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ بال بال بچ گئے۔

26 جنوری 2009 کو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ حسین علی یوسفی کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا۔

11 فروری 2009 کو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی قانون ساز عالم زیب خان پشاور میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ یہ ایک سال سے کم عرصہ میں اے این پی ممبران پر چھٹا بڑا حملہ تھا۔

25 اکتوبر 2009 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے پنجابی نژاد وزیر تعلیم بلوچستان شفیق احمد خان کو ان کی کوئٹہ کی رہائشگاہ کے باہر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

یکم دسمبر 2009 کو اے این پی کے ایک اور رہنما شمشیر علی خان کو سوات میں قتل کر دیا گیا۔

3 جنوری 2010 کو سابق صوبائی وزیر تعلیم غنی الرحمٰن بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔

20 جنوری 2010 کو ایک اور اے این پی رہنما اورنگزیب خان دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔

24 جولائی 2010 کو خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو ان کے دوست کے ہمراہ خان شیر گڑھی میں نامعلوم حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

4 جنوری 2011 کو پنجاب گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ نے گولی مار کر قتل کر دیا۔

2 مارچ 2011 کو وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کو اسلام آباد میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

دسمبر 2012 میں خیبر پختونخوا کے سینیئر وزیر بشیر احمد بلور پشاور میں خودکش دھماکے میں قتل ہوئے۔

11 اپریل 2013 کو متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فخرالاسلام کو نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

16 اگست 2015 کو پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔

2 ستمبر 2017 کو ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کو نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کر کے قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ محفوظ رہے۔

13 جولائی 2018 کو بلوچستان کے نامور سیاستدان نواب سراج رئیسانی کو مستونگ میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا۔ وہ سابق صوبائی وزیر اعلیٰ میر اسلم رئیسانی کے بھائی تھے۔

جولائی 2018 میں انتخابات سے 14 روز قبل اے این پی کے سینیئر لیڈر بیرسٹر ہارون بلور اور دیگر 13 افراد خودکش دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔

24 جولائی 2018 کو سابق صوبائی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اکرام گنڈاپور ایک خودکش حملےمیں قتل ہو گئے۔

25 دسمبر 2018 کی شب متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی کو ان کی کراچی رہائشگاہ کے باہر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
مزیدخبریں