جب سب کچھ ہی طے ہو چکا تو انتخابات کا ڈرامہ رچانے کی کیا پڑی ہے؟

مگر کون جانتا تھا کہ یہ اقرار نامہ اور معافی نامہ جو باجوہ صاحب کی طرف سے سامنے آیا تھا، یوں محسوس ہو گا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی وہ بھی ریٹائر ہو جائے گا۔ موجودہ حالات میں دوبارہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار اور طاقت کا سرچشمہ وہی ہیں جو گذشتہ سات دہائیوں سے تھے۔ بس اب ایک بار پھر کی بورڈ واریئر بدل گئے ہیں۔

07:01 PM, 3 Nov, 2023

عظیم بٹ

کون کہتا ہے پاکستان میں مستقل مزاجی نہیں ہے، مجھے تو اس دعوے میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی۔ میں حقیقی اور تاریخی مثالوں سے اسے ثابت کر سکتا ہوں۔ قیام پاکستان کے بعد سے آغاز کیجیے اور کچھ ہی مہینوں کے گزرنے پر لیاقت علی خان سے شروع ہو جائیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ مطالعہ پاکستان کے بجائے اصلی تاریخ پاکستان کا مطالعہ کریں۔ گذشتہ سات دہائیوں سے پاکستان میں مستقل مزاجی سے ایک ہی ادارے کا مسلسل اقتدار چل رہا ہے جو کبھی براہ راست ہم پر براجمان ہوتے ہیں تو کبھی ان کے لائے ٹاؤٹ حکمران بن جاتے ہیں۔ یہ مجھ اکیلے کا تجزیہ نہیں ہے بلکہ تاریخ نے اس پر مہر ثبت کر رکھی ہے۔

میثاق جمہوریت پر راضی ہونے والی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی عتراف کر چکی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پھر سینیئر صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے 'لندن پلان' کی خبر بریک کی جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر السلام سمیت دیگر افراد عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری شجاعت کے ساتھ بیٹھک میں یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اگلی کٹھ پتلی عمران خان ہو گا۔ اس کے بعد عمران نیازی کے 126 روزہ دھرنے سے لے کر آج تک کے سیاسی معاملات مزید شفاف ہو گئے ہیں جب پاناما سے اقامہ نکلا اور جوڈیشل مارشل لاء نافذ ہوا۔ خود کو بابا رحمتے کہنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار جمہوری نظام کیلئے بابا زحمتے ثابت ہوئے۔

جنرل باجوہ کے دور اقتدار میں عمران نیازی نامی پودے کو امپورٹڈ کھاد اور خالص پانی سے بڑھایا گیا، یہاں تک کہ وہ ہاتھوں سے نکل گیا۔ بلآخر باجوہ صاحب نے اپنے دور اقتدار کے آخری ایام میں تسلیم کیا کہ ماضی میں ہم سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں مگر اب ہم بدل چکے ہیں اور اے پولیٹکل ہو چکے ہیں لہٰذا ہمارے پچھلے پاپ گنگا میں بہا کر ہمیں گلے لگا لیں۔ اسی قسم کی باتیں ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے بھی مشہور زمانہ پریس کانفرنس میں کیں۔ نادان پنچھیوں جیسے ہمارے عوام ایک مرتبہ پھر مان گئے کہ باجوہ صاحب چونکہ غلطی تسلیم کر چکے ہیں تو ان کی سب غلطیاں معاف کریں اور آگے بڑھتے ہیں۔

مگر کون جانتا تھا کہ یہ اقرار نامہ اور معافی نامہ جو باجوہ صاحب کی طرف سے سامنے آیا تھا، یوں محسوس ہو گا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی وہ بھی ریٹائر ہو جائے گا۔ موجودہ حالات میں دوبارہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار اور طاقت کا سرچشمہ وہی ہیں جو گذشتہ سات دہائیوں سے تھے۔ بس اب ایک بار پھر کی بورڈ واریئر بدل گئے ہیں اور ہائبرڈ نظام اب کسی اور کی سہولت کاری میں مگن ہے۔ یہ تمام باتیں کیونکہ فی الحال براہ راست ثابت شدہ نہیں ہیں، اس لیے میں اس پر 100 فیصد یقین سے تو الزامات نہیں لگا سکتا کیونکہ میں ایک متوسط طبقے اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور اپنا کیریئر اور جان مجھے کسی حد تک عزیز ہے۔

یہ سوال اس لیے دماغ میں آیا کیونکہ کچھ روز قبل نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ لمز یونیورسٹی میں طلبہ کے ایک سیشن میں گئے، وہاں جو ہوا وہ تو سب جان ہی چکے ہیں مگر طلبہ کے سوالات کو ایڈٹ کر کے صرف سوالات دکھا کر جس طرح پرانے استعمال شدہ کی بورڈ وایئررز نے پروپیگنڈا کیا، وہ دو ہی دن میں بے نقاب ہو گیا اور اسے بے نقاب ریاستی ادارے پی ٹی وی نے کیا۔ یہ پرانے کی بورڈ واریئرز اپنے ہینڈسم رہنما کے لیے گزشتہ چار سالوں سے یہی کچھ کرتے آ رہے ہیں جن کو تب نیازی حکومت اور اس وقت کے طاقت ور حلقوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ لمز یونیورسٹی کے طالب علموں کی تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ عمران خان کی تصویر لگا کر اور بیک گراؤنڈ میں گانے چلا کر تحریک انصاف کے یہ یوٹیوبرز اور نام نہاد پیڈ ایکٹیوسٹ نما صحافی سوشل میڈیا پر کہرام مچا رہے تھے مگر ان کا یہ پروپیگنڈا اگر انہی کی زبان میں کہوں تو اس وقت 'وڑ' گیا جب لمز کے طالب علموں نے انٹرویو دے کر الٹا تحریک انصاف کے پیڈ صحافی نما کارکنان کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا کہ ان کا عمران نیازی سے کوئی تعلق ہے اور نا وہ اس کو پسند کرتے ہیں بلکہ وہ تو نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے متاثر ہوئے ہیں۔

دوسری جانب انتخابات کی تاریخ پر ایک ڈرامائی صورت حال دیکھنے کو ملی جہاں ایسے چیف الیکشن کمشنر جو براہ راست صدر مملکت سے ملنے سے انکاری تھے، عدالتی حکم پر بھاگے بھاگے صدر سے ملنے جا پہنچے۔ یوں تو صدر صاحب کا کردار بھی انتہائی مشکوک ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ عارف علوی نے ن لیگ کے قائد نواز شریف سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ خیر انتخابات کی تاریخ میں ڈرامہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں 11 فروری کی تاریخ دی تھی مگر صرف اپنی انا کو مطمئن کرنے کیلئے یا کسی بنگالی بابا یا آنٹی کے فال نکالنے کے نتیجے میں صدر صاحب نے 'آئینی بالادستی' کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ میں صرف تین روز کا فرق ڈالا اور تاریخ طے ہونے پر سب خوش ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ تین دن پہلے ہوں یا بعد میں، آئین کی رو سے تو 90 روز کی مدت گزر چکی ہے، تو آخر سب فریق اس پر متفق کیوں نظر آتے ہیں؟

ابھی ایک روز قبل ایک بہت بڑے چینل کے سینیئر ترین اینکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ طے ہو رہا ہے کہ صدارت اور وزارت خارجہ پیپلز پارٹی کو دی جائے گی اور وزارت عظمیٰ اور باقی کابینہ مسلم لیگ ن کے پاس ہو گی۔ انتخابات میں نیازی صاحب پابند سلاسل رہیں گے اور تحریک انصاف کو کمزور اپوزیشن دی جائے گی۔ حال ہی میں بننے والے پریشر گروپ کی حمایت آنے والی حکومت یعنی مسلم لیگ ن کو حاصل ہو گی۔

اس منظرنامے میں اگر رتی برابر بھی حقیقت ہے جو کہ یقیناً ہو گی کیونکہ میں تحریر کے شروع میں ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم پاکستانی بہت مستقل مزاج ہیں، یہاں سات دہائیوں سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔ تو اگر یہ سچ ہے تو ہم پر ایک احسان کیجیے کہ جب سب کچھ ہی طے ہو چکا ہے تو یوں ہی بنا کسی انتخابی ڈرامے کے ان سب کو ہم پر مسلط کر دیجیے۔ کیوں آخر ہمارے 70 سے 80 ارب روپے انتخابات نامی اس ڈرامے پر خرچ کرنے ہیں جس کا نتیجہ ہم ابھی سے جان چکے ہیں؟ یہی 70 سے 80 ارب روپے عوام پر لگا دینے سے ہمیں زیادہ خوشی مل جائے گی، بجائے اس کے کہ قوم کا یہ پیسہ ایک نام نہاد جمہوری روایت کو بچانے کے لیے نمائشی انتخابات کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔

ویسے بھی ہم بے بس لوگ ہیں جو یہاں آمریت کے دس دس سال میں کچھ بول نہیں سکے، جہاں رہنماؤں کو پھانسیاں دی گئیں، گولیاں ماری گئیں، سزائیں سنائی گئیں، نا اہلیاں کی گئیں اور جلا وطنیاں کی گئیں۔ جب ہم لاچار یہ سب براداشت کر سکتے ہیں اور آپ کے سامنے خاموش رہ کر آپ کی ہر بات پر آمین کہہ سکتے ہیں تو جان کی امان مانگتے ہوئے حضور سے درخواست ہے، گزارش ہے اور التجا ہے کہ یہ انتخابات رہنے دیں۔ ہم اس بار بھی آپ کے فارمولے پر آمین کہہ لیں گے، بس آپ انتخابات چھوڑیے اور ہمارے 80 ارب ہم پر لگا دیجیے۔

مزیدخبریں