عمران خان نے اپنے وکیل حامد خان کے ذریعے اپنا بیان عدالت میں جمع کرا دیا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ میں نے توہین عدالت کی ہے تو میں معذرت کر لیتا ہوں۔ یہ بیان دراصل عدالت کا منہ چڑانے کے مترادف تھا کیونکہ عدالت نے عمران خان کے بیان کو توہین عدالت سمجھا تھا اسی لئے تو نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے دانیال عزیز، طلال چودھری اور نہال ہاشمی کے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ سے انحراف نہیں کر سکتے لیکن کمال مہربانی کرتے ہوئے عمران خان کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریری معافی جمع کرائیں۔
دو دن قبل عمران خان ڈرامائی انداز میں مجسٹریٹ زیبا چودھری کی عدالت میں پہنچ گئے اور سٹاف سے کہا کہ زیبا چودھری سے ملنے آئے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ مجسٹریٹ صاحبہ موجود نہیں ہیں تو عمران خان نے کہا کہ انہیں بتا دینا کہ عمران خان ایا تھا معذرت کرنے۔ باخبر حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ مجسٹریٹ صاحبہ آج چھٹی پر ہیں اسی لئے یہ ڈرامہ کیا۔
آج ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دانیال، طلال اور نہال کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان کی معافی پر اعتراض اٹھایا تو عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ ان تینوں حضرات کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو درست مانتے ہیں؟ میرے خیال میں ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب کو کہنا چاہیئے تھا کہ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ عددالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط سمجھتی ہے؟ اس بات سے بہت کچھ واضح ہو جاتا۔
عمران خان کو کسی کی بھی پگڑی اچھالنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے کیونکہ عمران خان کے رویئے میں کسی مثبت تبدیلی کی امید ہماری عدلیہ کو ہو تو ہو کسی ذی شعور انسان کو ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔