پچھلے ایک سال سے جو دعوے کیے جا رہے تھے وہ سب کے سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ قومی ٹیم قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ رمیز راجہ کے آنے کے بعد امید تھی کہ ٹیم میں شامل ہونے کے لیے میرٹ کی بالا دستی کا جو راگ الاپا گیا تھا وہ سچ ثابت ہو گا مگر ایسا نہ ہوا۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ چیئرمین پی سی بی پلیئرز پاور کے سامنے بے بس ہیں۔
پاکستان میں پلیئرز پاور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسٹارز کرکٹر اپنی لابی بنا کر اپنے فیصلے ٹیم پر مسلط کیا کرتے تھے۔ یہی کچھ اب بھی ہو رہا ہے۔ رمیز راجہ چونکہ خود بھی سٹار کرکٹر رہے ہیں اور ورلڈ کپ 92 کی فاتح ٹیم کے رکن تھے، ان سے توقع تھی کہ ماضی کے تجربات کے پیشِ نظر وہ پلیئرز پاور کی من مانیوں کے خلاف اہم اقدامات کریں گے مگر یہ نہ ہوا۔ الٹا وہ پلیئرز پاور کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
بابر اعظم اور محمد رضوان شعلے فلم کے جے اور ویرو کی طرح اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرتے اور طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں کی ہر صورت ٹی ٹوئنٹی ٹیم اوپنرز بننے کی خواہش نے تین باصلاحیت اوپنرز کی کرکٹ پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ پہلے ریگولر اوپنر فخر زمان کو ون ڈاؤن یا ٹو ڈاؤن کھلا کر ان کی فارم تباہ کر دی گئی۔ اب وہ ٹیم سے باہر ہیں۔ شان مسعود پی ایس ایل اور کاؤنٹی کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد واپس تو آ چکے ہیں مگر ان کے ساتھ بھی فخر زمان والا کام کیا جا رہا ہے۔ شرجیل خان کشمیر پریمیئر لیگ کے علاوہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی سنچریاں سکور کر چکے ہیں۔
باؤلنگ میں شاہین شاہ آفریدی زخمی ہونے کے بعد بحالی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ زخمی ہونے کے بعد دوبارہ فارم میں آنا خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ حارث رؤف اچھی باؤلنگ کر رہے ہیں۔ محمد حسنین اور شاہ نواز دھانی کو تواتر سے مواقع ملتے رہے تو وہ بھی حارث رؤف اور شاہین شاہ آفریدی جیسی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ خوشدل شاہ، حیدر علی، آصف علی اور افتخار احمد کی کارکردگی بہت بری ہے۔ سرفراز احمد کی راہ میں محمد رضوان جبکہ عماد وسیم کی راہ میں بابر اعظم رکاوٹ ہیں۔ محمد نواز اور شاداب خان ان کی گڈ بک میں ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔