پولیس نے احمدی عبادت گاہ کے مینار اور 25 قبروں پر نصب کتبے توڑ دیے

ضلع ننکانہ صاحب میں یکم اکتوبر کی شب پولیس نے 1948 سے قبل تعمیر شدہ احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب توڑ دیے جبکہ ضلع سیالکوٹ کے علاقے ڈگری گھمناں میں پولیس نے مذہبی انتہاپسندوں کے مطالبے پر مشترکہ قبرستان میں بنی 25 احمدی قبروں پر نصب کتنے توڑ دیے۔

04:18 PM, 3 Oct, 2024

نیوز ڈیسک

مذہبی انتہاپسندوں کے مطالبے پر پولیس کی جانب سے احمدی برادری کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ تازہ واقعہ میں ضلع ننکانہ صاحب کے علاقے 45 مرڑ میں پولیس نے 1948 میں تعمیر شدہ ایک احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب توڑ دیے۔ جبکہ ایک اور واقعہ میں ضلع سیالکوٹ کے علاقے ڈگری گھمناں میں پولیس نے انتہاپسندوں کے مطالبے پر مشترکہ قبرستان میں 25 احمدی قبروں پر لگے کتبے توڑ دیے۔

تفصیلات کے مطابق جماعت احمدیہ کی مذکورہ عبادت گاہ 1948 میں تعمیر ہوئی تھی۔ گذشتہ سال سے تحریک لبیک کی جانب سے احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب گرانے کے لئے احمدیوں کو ہراساں کیا جا رہا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ انتظامیہ نے اگر کارروائی نہ کی توانتہا پسند از خود کارروائی کریں گے۔

چند روز قبل معلوم ہوا کہ انتظامیہ مذہبی انتہا پسندوں کے دباؤ میں مذکورہ عبادت گاہ کے مینار گرانا چاہتی ہے جس پر احمدیوں نے انتظامیہ کو اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ جات کی نقول پیش کیں۔ اس کے باوجود یکم اور 2 اکتوبر کی درمیانی شب 1 بجے کے قریب پولیس اہلکاروں نے آ کر تمام سکیورٹی کیمرے بند کر دیے اور میناروں اور محراب کو توڑ دیا۔

ایک دوسرے واقعہ میں انتہا پسندوں کے مطالبہ پر ڈگری گھمناں ضلع سیالکوٹ میں پولیس نے رات کے وقت مزدور لا کر مشترکہ قبرستان میں احمدیوں کی قبروں کے 25 کتبوں کو تڑوا دیا۔ 2 دن قبل اسی علاقے میں احمدیہ قبرستان میں 47 احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کو پولیس کی موجودگی میں انتہا پسندوں نے توڑ دیا تھا۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے Crl.Misc.No.5151/B/2023 میں 31 اگست 2023 کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ 1984 سے قبل بنائی گئی احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے۔ مذکورہ تحریری فیصلے کے پیراگراف 16 میں معزز جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے نہایت وضاحت کے ساتھ قرار دیا تھا کہ ایسی احمدیہ عبادت گاہیں جو 1984 کے قوانین کے اطلاق سے قبل تعمیر کی گئی تھیں ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور انہیں گرانا یا نقصان پہنچانا خلاف قانون عمل ہو گا۔

ننکانہ پولیس کا یہ اقدام سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014 کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں قرار دیا گیا تھا کہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مذہب اور فرقے کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔

گذشتہ دو ہفتوں میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں انتہا پسند عناصر کے دباؤ پر پولیس کی جانب سے احمدیوں کے خلاف جاری غیر قانونی کارروائیوں سے ناصرف احمدیوں بلکہ انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے افراد میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

مزیدخبریں