خیبر پختونخوا: ڈینگی سے متاثرہ افراد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، تعداد 147 ہو گئی
محکمہ صحت نے ڈینگی سے متاثرہ علاقوں میں سرویلنس سے متعلق اقدامات کو مزید سخت کر دیا ہے جبکہ متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سمیت ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو بھی جہاں لاروے کی نشاندہی ہو رہی ہے وہاں پر خصوصی نگرانی کی ہدایات کی گئی ہیں. ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور سے ملحقہ ضلع خیبر میں خصوصاً ڈینگی سے متاثرہ 82کیسز نے محکمہ صحت کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے. مذکورہ کیسز زیادہ تر ضلع خیبر میں رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ پشاور میں حالیہ 34 کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔ گذشتہ سال بھی پشاور کے علاقے تہکال بالا میں سب سے زیادہ ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی ڈینگی کے واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں صوابی سے 6، اپر دیر 2، اور اسی طرح لوئر دیر سے دو متاثرہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس میں کتے کے کاٹے کی ویکسین نایاب
شہر کے گلی کوچوں میں آوارہ کتوں کی بھرمار سے شہریوں اور تاجروں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ ڈی ایچ او آفس میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود نہیں جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوامی شکایات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے جبکہ ایمرجنسی کی صورت میں لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہسپتال انظامیہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایک مہینہ ہوا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کو اس حوالے سے خبردار کیا ہے لیکن ابھی تک انہیں ویکسین موصول نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھار عوام کی ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ لڑائی بھی ہوجاتی ہے کیونکہ ایمرجسنی کے دوران ویکسین نہ لگانے کی وجہ سے مریض کو کافی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق روزانہ تین سے چار واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر حکومت نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی جامع منصوبہ بندی عمل میں نہیں لائی ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے۔
ضمنی انتخابات: تحریک انصاف نے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کو ٹکٹ دے دیئے
خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں موروثیت بھرپور طریقے سے غالب آ گئی اور حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے پارٹی کارکنوں پر اعتماد کرنے کی بجائے اپنے نزدیکی رشتہ داروں میں ٹکٹ تقسیم کر دیئے ہیں. الیکشن میں سابق وزرائے اعلیٰ اکرم خان درانی اور پرویز خٹک کے صاحبزادے جبکہ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بھائی میدان میں آ گئے ہیں۔ 14 اکتوبر کو خیبر پختونخوا میں ایک قومی اور 9 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکلمل ہو گیا ہے اور عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات کے لئے بھی سیاسی رہنماؤں نے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو میدان میں اتارا ہے. وزیر اعظم عمران خان کی خالی نشست این اے 35 بنوں کی نشست پر سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کو ٹکٹ دیا گیا ہے. وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی نوشہرہ کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے پی کے 61 کے لئے ان کے صاحبزادے ابراہیم خٹک اور پی کے 64 پر ان کے بھائی لیاقت خٹک کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے جنہوں نے ضمنی الیکشن کی خاطر نوشہرہ کی ضلعی نظامت چھوڑ دی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 44 صوابی کی نشست پر ان کے بھائی حکیم اللہ نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں۔ پی کے 3 سوات سے ڈاکٹر حیدر علی کی خالی نشستوں پر ان کے بھتیجوں آفتاب خان اور ساجد خان جبکہ ڈی آئی خان سے سابق صوبائی وزیر علی امین گنڈاپور کی خالی نشست پی کے97 پر ان کے بھائی فیصل امین گنڈاپور کو میدان میں اتارا گیا ہے۔
آئس نشہ بڑھ رہا ہے، سیکرٹری داخلہ، قانون اور نارکاٹکس کیا کر رہے ہیں؟ پشاور ہائیکورٹ
پشاور میں آئس نشے کے خلاف دائر درخواست پر ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، ڈپٹی کمشنر پشاور، سکیرٹری نارکاٹکس، ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل ہیلتھ اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سکندر رضا عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس قیصر رشید نے عدالت میں موجود افسروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئس نشے سے نوجوان متاثر ہو رہے ہیں، حکومت نے روک تھام کے لئے کیا اقدامات کیے، ہمیں کاغذی کارروائی نہیں کام چاہئے. انہوں نے سوال کیا کہ سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون اور سیکرٹری نارکاٹکس کیا کر رہے ہیں؟ آئس ضلع خیبر سے آتا ہے جسے روکنا ہوگا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سکندر رضا نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ انٹی نارکاٹکس قانون موجود ہے لیکن اس میں آئس نشہ کرنے والوں کے لئے سزا مقرر کی جائے. عدالت نے آئندہ سماعت پر پراگرس رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی. فاضل جج نے کیس کی سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئےکہا کہ اگر اقدامات نہیں کیے گئے تو پھر اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور سیکرٹریز کو عدالت طلب کریں گے۔
خیبر پختونخوا، درکار فنڈ میں کمی سے ہیلتھ منصوبے مسائل سے دو چار
محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق محکمے کا ترقیاتی بجٹ تقریباً ایک ارب روپے ہے. رواں مالی سال کے چار مہینوں کے لئے دو ارب 70 کروڑ کا ترقیاتی بجٹ جاری کیا جا چکا ہے جبکہ 8 ماہ کا بجٹ پیش ہونے کے بعد باقی ماندہ ساڑھے7 ارب جاری کیے جائیں گے۔ محکمہ صحت افسروں کے مطابق ہر سال ترقیاتی پروگرام میں منصوبے شامل ہونے کے باعث جاری منصوبے وقت پر مکمل نہیں ہو پاتے. انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کےمطابق شعبہ میں جاری منصوبوں کے لئے 40 سے 50 ارب روپے درکار ہیں. انہوں نے تجویز دی کہ حکومت اگلے چند سال تک صحت کے شعبہ میں نیا منصوبہ شامل نہ کرے تاکہ جاری منصوبے وقت پر مکمل کیے جا سکیں۔ صحت کے جو بڑے منصوبے اس وقت تاخیر کا شکار ہیں ان میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایڈیشنل وارڈز کی تعمیر، خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں کیژؤلٹی بلاک، سیدو شریف ہسپتال کی تعمیر، ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل کالج پشاور کی تعمیر، انسٹٹیوٹ آف کارڈیالوجی پشاور، نوشہرہ میڈیکل کالج کا قیام، بحالی و تعمیرنو کے منصوبے اور مختلف پروگرامز شامل ہیں۔ دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان منصوبوں کی محکمہ صحت کی سطح پر فزیکل مانیٹرنگ بھی نہ ہونےکے برابر ہے جس سے منصوبوں کی بروقت تکمیل ممکن نہیں۔