لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

کیا شخصیت تھی اس کی اور کیسی بے باک تھی وہ۔ ڈر اور خوف نام کی چیز سے وہ واقف ہی نہیں تھی۔ وکالت کی تو اپنی دھاک بٹھادی، سیاست پر بات کی تو بڑے بڑے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا۔ اس نے اپنی ساری زندگی عوام کے درمیان انہی کے مسائل پر بات کرتے گزار دی۔ آمریت کے خلاف ایک مضبوط چٹان کی طرح کھٹری رہی۔ جب بھی ملک میں مارشل لا لگا وہ ایک مجاہدہ کی طرح اسکا مقابلے کرنے کھڑی ہو گئی۔ حالات کی نبض پر اسکا ہاتھ رہتا تھا اور جو کہتی اس پر ڈٹ جاتی۔ آج اسکی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس جیسا کوئی بھی نہیں جو عوام کی بات کر سکے۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی جس نے کہا تھا کہ جس دن ایک جنرل کی کرپشن سامنے آ گئی تو سیاستدانوں فرشتے لگیں گے۔


سینئر تفتیشی صحافی احمد نورانی نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور موجودہ چیئرمین سی پیک اتھاڑیٹی جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے اثاثہ جات عوام کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ نورانی صاحب کی تفتیش کے مطابق یہ اثاثے امریکہ، کینیڈا، متحدہ امارات اور پاکستان میں دریافت ہوئے ہیں۔ نوارنی صاحب کا کہنا ہے کہ 2001 تک امریکہ میں مقیم انکے خاندان کی کوئی جائیداد نہیں تھی لیکن 2002 میں جب جنرل موصوف بریگیڈیئر بنے اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر مقرر ہوئے تو انکے خاندان کے اثاثے بننا شروع ہوئے اور ہر ترقی کیساتھ اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نورانی صاحب کے مطابق اس وقت انکے خاندان کی ۹۹ کمپنیاں اور ۱۳۰ سے زیادہ فرنچائزز موجود ہیں جبکہ دو شاپنگ مال اور دو ذاتی گھر بھی ہیں۔


نورانی صاحب نے یہ نہیں کہا کہ یہ اثاثے منی لانڈرنگ یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے ہیں۔ نورانی صاحب کا سوال صرف یہ ہے کہ جنرل صاحب نے حال ہی میں اپنے جو اثاثے ڈکلیرڈ کئے ہیں اس میں ان اثاثہ جات کا ذکر نہیں بلکہ غیر ملکی اثاثہ جات کے خانے میں 'غیرمتعلق لکھا یعنی دیار غیر میں انکے کوئی اثاثے نہیں ہیں۔ 

نورانی صاحب کی تفتیشی رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی ٹویٹ سامنے آئی کہ ایک غیر معروف ویب سائٹ پر لگائے گئے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ اسکو رد کرتے ہیں۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ویب سائٹ اتنی ہی غیر معروف تھی تو آپ کو اس قدر جلد اسکا علم کیسے ہو گیا اور اگر الزامات جھوٹے ہیں تو آپ نے جواب میں ٹویٹ کرنا کیوں ضروری سمجھا۔


کل مریم نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر تین دفعہ کے وزیر اعظم سے رسیدوں کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، اگر مریم نواز سے جس کے پاس کبھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں رہا رسیدیں مانگی جا سکتی ہیں اور اگر سپریم کورٹ کے ایک جج کی اہلیہ سے یہی مطالبہ کیا جا سکتا ہے تو پھر قانون سب کیلئے برابر ہے اور باجوہ صاحب کو چاہیئے کہ عوام کو مطمئن کرنے کیلئے رسیداں فراہم کریں۔


ذرائع خبر دے رہے ہیں کہ عوامی دباوٗ کے تحت باجوہ صاحب استعفیٰ دے سکتے ہیں لیکن اب صرف استعفیٰ سے بلا نہیں ٹلے گی۔ اب باجوہ صاحب کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ احمد نورانی کے الزامات جھوٹے ثابت کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کریں۔ باجوہ صاحب اب ایک سویلین ہیں لہذا چیئرمین نیب کو چاہیئے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس بات پر مہر لگ جائیگی کہ وہ 'کن' طاقتوں کے لائے ہوئے ہیں۔

جب سابق وزیر اعظم کی بیٹی اور بیٹوں کو عدالتوں میں رسوا کیا جا رہا تھا تو حالات پر نظر رکھنے والے کہہ رہے تھے کہ اب یہ آگ کسی کا گھر نہیں چھوڑے گی۔ اس بات پر اب سب ہی متفق ہیں کہ باجوہ صاحب 'رسیداں کڈو'

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔