انھوں نے کہا کہ پنجاب کے تمام ضمنی انتخابات کو دیکھا جائے تو بظاہر ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حالانکہ عام طور پر پاکستان جیسے ملک میں ضمنی انتخابات عموماً وہی امیدوار جیت جاتے ہیں جن کا حکومتی پارٹی سے تعلق ہو۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام "آپ کا حلقہ" میں اظہار خیال کرتے ہوئے شوکت اشفاق کا کہنا تھا کہ سلمان نعیم کی شکست کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ملتان سے مقامی قیادت بھی پوری طرح سے سلمان نعیم کو سپورٹ نہیں کر رہی تھی اور (ن) لیگ کی مرکزی قیادت بھی ضمنی انتخابات سے پہلے ملتان میں نظر نہیں آئی۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام "آپ کا حلقہ" میں آج جس حلقے میں ضمنی انتخابات کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے وہ ملتان کا حلقہ پی پی 217 ہے۔ اس حلقے میں سے 2018 کے عام انتخابات میں سلمان نعیم آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں شامل ہوئے تھے اور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کو شکست دے دی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے بعد میں بیان دیا تھا کہ انہیں ہرانے کے لیے پارٹی کے اندر سے کچھ لوگوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا اشارہ جہانگیر ترین کی جانب تھا۔ آگے چل کر یہ ہوا کہ سلمان نعیم جیت کر جہانگیر ترین کے جہاز میں سوار ہوئے اور پھر سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ مرکز میں جب عدم اعتماد کی تحریک کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا تو اس کا اثر پنجاب اسمبلی پر بھی پڑا۔ پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے جن ایم پی ایز نے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے امیدوار حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیے انہیں بعد میں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ سلمان نعیم بھی انہی لوگوں میں شامل تھے۔
اس نشست پر جولائی میں جب ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے سلمان نعیم کو ٹکٹ دے دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔
17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں کچھ کم تو رہا مگر فرق تھوڑا ہی تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سلمان نعیم (ن) لیگ کے ٹکٹ پر یہ سیٹ جیت جائیں گے کیونکہ پچھلے عام انتخابات میں سلمان نعیم کا ذاتی ووٹ بینک اور (ن) لیگ کا ووٹ بینک اگر اکٹھا کر لیا جائے تو یہ 63 فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی اور ان کا پورا خاندان بھی ضمنی انتخابات میں سلمان نعیم ہی کی حمایت کر رہا تھا مگر نتیجہ کچھ اور ہی رہا۔ پی ٹی آئی کے زین قریشی 51 فیصد ووٹ لے کر یہاں سے کامیاب قرار پائے جبکہ سلمان نعیم کو 44 فیصد ووٹ ملے۔ 2018 کے انتخابات میں سلمان نعیم نے 39 فیصد ووٹ لیے تھے جبکہ شاہ محمود قریشی نے 35 فیصد ووٹ لیے تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے امیدوار نے 24 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔