ذاتی زندگی اور تیسری شادی
1943 میں بھٹو صاحب 15 سال کے تھے جب ان کی شادی کر دی گئی۔ خاندانی دباؤ کی وجہ سے انہیں اپنے سے دگنی عمر کی خاتون شیریں امیر بیگم سے بیاہ کرنا پڑا۔ دوسری شادی انہوں نے 1951 میں کی۔ بیگم نصرت بھٹو ایرانی کرد نژاد تھیں۔ وہ 1979 میں بھٹو صاحب کی وفات تک ان کے ساتھ رہیں۔ ان کے یہاں چار بچوں کی پیدائش ہوئی: شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، بینظیر بھٹو اور صنم بھٹو۔
اس کے علاوہ بھٹو صاحب کی ایک تیسری بیگم حسنہ شیخ بھی تھیں جن کے بارے میں زیادہ لوگوں کو علم نہیں۔ اس موضوع پر نیا دور کے لئے اپنے ایک مضمون میں ندیم فاروق پراچہ نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
’کراچی کی night life کا دمکتا ستارہ‘
بھٹو صاحب کو پانی و بجلی، مواصلات اور صنعتوں کی وزارتیں دی گئیں۔ قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق کتاب ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان بھٹو کو بہت پسند کرتے تھے اور انہیں کراچی کی night life کا دمکتا ستارہ سمجھتے تھے۔
بھٹو کی وزارتِ خارجہ اور چین سے پاکستان کی دوستی کی شروعات
جیسے جیسے ایوب خان کا انحصار بھٹو پر بڑھتا گیا، بھٹو صاحب کا ملکی سیاست میں اثر و رسوخ بھی بڑھتا چلا گیا۔ ایوب خان بھٹو پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ 1963 میں انہیں ملک کا وزیرِ خارجہ بھی بنا دیا۔ بین الاقوامی تعلقات اور سفارتکاری پر عبور نے آگے چل کر بھٹو صاحب کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ برکلے اور آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے بائیں بازو کی سیاست میں جو دلچسپی لینا شروع کی تھی، اس نے ان کو کسی حد تک سوشلزم کا حامی بھی بنا دیا تھا اور انہی کی کاوشوں سے پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات کا آغاز ہوا۔
چین کو پاکستان سے دوستی کا کیا فائدہ ملا؟
چین نے اس سے صرف ایک برس قبل بھارت کو جنگ میں شکست دی تھی اور اس جنگ نے بھٹو اور ایوب خان کو یقین دلا دیا تھا کہ بھارت کے ساتھ ’مشترکہ دفاعی اتحاد‘ کے معاہدے پر مزید وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور پاکستان کو اب چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے جو کہ مستقبل میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے میں بھی کام آ سکتا تھا اور 1964 میں سوؤیت یونین نے بھی چین کے ساتھ نظریاتی اختلافات کی بنا پر تعلقات ختم کر لیے تھے۔ پاکستان نے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس طرح بیجنگ کو بھی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مستقل رکن کی حیثیت مل گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ بیجنگ حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم بھی کر لیا گیا جس کے بعد تائیوان میں قائم متوازی حکومت کے اثر و رسوخ کو مکمل طور پر ختم کر دینے میں بھی اسے مدد ملی۔
معاہدہ تاشقند: بھٹو اور ایوب خان میں فاصلوں کی بنیاد
اگلے برس پاکستان اور بھارت کی جنگ ہو گئی۔ 1965 کی جنگ میں جہاں پاکستان کی نوجوان ریاست نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہیں اس جنگ نے ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان کے درمیان دوریاں بھی پیدا کر دیں۔ 1966 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے جو معاہدہ تاشقند کے نام سے جانا جاتا ہے، میں جن شرائط پر معاہدہ کیا گیا، وہ پاکستانی عوام کی توقعات کے بالکل برعکس تھیں کیونکہ انہیں دورانِ جنگ ہر طرح کا پراپیگنڈا کر کے یہ باور کروا دیا گیا تھا کہ پاکستان یہ جنگ جیت چکا ہے۔ ایوب خان حکومت اس سیاسی بحران سے دوچار تھی کہ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی معاہدہ تاشقند کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اس تنقید کے بعد ان دونوں افراد کی راہیں جدا ہو گئیں اور بھٹو نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے وہ آخری دم تک سربراہ رہے۔
1971 کی جنگ اور ذوالفقار علی بھٹو کا کردار
ایوب خان کے پورے دور میں اور اس سے پہلے بھی صوبہ بنگال میں سیاسی حالات خلفشار کا شکار رہے تھے۔ 1964 کے صدارتی انتخابات میں بنگالیوں نے بڑی تعداد میں محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیے تھے اور ایوب خان کے اقتدار سے نکالے جانے میں بھی بنگال میں سیاسی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی فتح نے مغربی پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کی نیندیں اڑا دیں۔ اقتدار کی منتقلی میں لیت و لعل سے کام لیا گیا اور بالآخر مارچ 1971 کے آخر میں بنگال میں ایک فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا جو بالآخر سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوا، اور ذوالفقار علی بھٹو اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
بھٹو صاحب کے زوال کی وجوہات
مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو صاحب کے کردار پر بہت بات ہوتی ہے۔ لیکن یوں کہا جائے کہ اس میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ 1971 کے سقوطِ ڈھاکہ ہی نے بھٹو صاحب کی پھانسی کا رستہ ہموار کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1977 میں اگلے انتخابات تک ویسے بھی بھٹو صاحب اپنے تمام قریبی ساتھیوں کو خود سے دور کر کے اپنا سیاسی قلعہ خود اپنے ہاتھوں سے توڑ چکے تھے۔
طاقتور لوگوں کو اپنا دشمن بنانے کی پالیسی
4 اپریل 1979 کو ہونے والی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی غالباً پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین واقعہ ہے۔ وہ شخص کہ جس نے اس قوم کو اس وقت اپنے پیروں پر کھڑا کیا جب اسے اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا تھا، ایک فوجی حکومت کے ہاتھوں پھانسی لگا دیا گیا۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ اس کی وجوہات کیا تھیں۔ اور شاید اس کی بیسیوں توجیہات بھی پیش کی جا سکتی ہوں لیکن ان میں سے ایک بڑی وجہ صنعتکاروں سے دشمنی مول لینا بھی ہے۔
بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد جس وقت ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے، تب تک ملکی معیشت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ پاکستان کے letters of credit عالمی بنکوں سے مسترد کیے جا رہے تھے اور بے یقینی کی فضا سرمایہ کاروں کو اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس بے یقینی کی فضا میں بھٹو صاحب کے وزیرِ خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کی سرپرستی میں صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے مزید اضافہ کیا۔
اس سے سرمائے کے ملک سے باہر جانے کے عمل کو تو وقتی طور پر روک دیا گیا اور معیشت کو مزید بگڑنے سے بھی بچا لیا گیا لیکن ملک کے امرا اور رؤسا کے دلوں میں اس سے بھٹو صاحب کے لئے کوئی ہمدردی نہیں پیدا ہوئی ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ جونہی 1977 میں جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کیا، یہ سب بھٹو مخالف کیمپ میں شامل ہو گئے اور فوجی حکومت کے سب سے بڑے اتحادی بن کر سامنے آئے۔
اختلافات کو دشمنیوں میں تبدیل کر لینے کی عادت
کوئی بھی حکومت محض اس وقت تک حکومت کر سکتی ہے جب تک اس کے مخالفین اس کو ہٹانے کے لئے یکسو نہیں ہو جاتے۔ اور بھٹو صاحب کو اختلاف سے جتنی نفرت تھی، انہوں نے جلد ہی اپنی ساری اپوزیشن کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ان کے سب سے بڑے مخالف خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی مسلسل ان کے نشانے پر رہی۔ یہاں تک کہ ان کی زرعی اصلاحات میں بھی عمر نعمان کی کتاب The Political Economy of Pakistan کے مطابق ولی خان کے سیاسی گڑھ چارسدہ، مردان اور صوابی پر خصوصی نظرِ کرم رکھی گئی۔
ان کے تمام بڑے سیاسی مخالفین جیلوں میں ڈالے گئے۔ ان میں غوث بخش بزنجو، عبدالولی خان، سردار عطا اللہ مینگل کے علاوہ دیگر بڑے نام شامل ہیں۔
دائیں بازو کا میڈیا ہمیشہ سے خلاف تھا۔ بائیں بازو کو کیسے اپنے خلاف کیا؟
پاکستان کا پریس بھی بھٹو صاحب سے خوش نہیں تھا۔ روزنامہ پاکستان کے بانی مجیب الرحمٰن شامی بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے صنعتوں کو قومیانے کے بعد کاغذ کی درآمد پر بھی سخت کنٹرول قائم رکھا۔ ماضی میں یہ کاغذ مشرقی پاکستان سے آتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جو اخبارات و رسائل حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے انہیں کاغذ کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام صنعتیں حکومت نے قومیا رکھی تھیں، لہٰذا جو بھی اخبار حکومت کے خلاف بات کرتا، اس کےاشتہار بند کر دیے جاتے تھے۔
پریس بدستور بھٹو صاحب کے خلاف ہوتا چلا گیا۔ دائیں بازو کا پریس تو ہمیشہ سے ان کے خلاف ہی رہا تھا۔ بائیں بازو کے سرکردہ رہنماؤں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر خود سے دور کر دینے کی پالیسی نے بائیں بازو کے پریس کو بھی ناراض کر دیا۔ ان لیڈران میں معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، میاں محمود قصوری، جے اے رحیم اور دیگر شامل تھے۔ یہ وہ افراد تھے جو ابتدا میں بھٹو صاحب کی کچن کابینہ کا حصہ تھے۔ ساتھ ساتھ یہ اس وقت پاکستان میں بائیں بازو کے اہم ترین رہنما بھی تھے۔ ان کے نکالے جانے اور نکالے جانے کے طریقے نے بائیں بازو کے سیاستدانوں اور پریس کو بھٹو صاحب سے دور کر دیا۔
دوستوں کو دشمنوں میں تبدیل کر دینے کی خامی
1971 میں اقتدار میں آنے کے وقت ذوالفقار علی بھٹو کے قریب ترین ساتھی 1977 کے انتخابات تک ان سے دور ہو چکے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر کو 1973 میں پنجاب کا گورنر بنایا گیا۔ بعد میں وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا اور پھر دوبارہ چار ماہ کے لئے گورنر بنانے کے بعد انہیں ایک بار پھر اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
معراج محمد خان اس سے بہت پہلے کابینہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔ 1974 میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی کابینہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ تاہم، انہوں نے 1977 کے انتخابات میں لاہور پیپلز پارٹی کے لئے بے تکان کام کیا لیکن انتخابات کے کچھ ہی عرصے بعد بھٹو صاحب سے اختلافات کی بنیاد پر خود کو پارٹی سے دور کر لیا۔
جے اے رحیم بھٹو صاحب کے قریب ترین ساتھی تھے۔ بنگالی ہونے کے باوجود 1971 میں انہوں نے شیخ مجیب کی سیاست کو فسطائیت قرار دیا اور بھٹو کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ لیکن ان کا پارٹی سے علیحدہ کیے جانے کا انداز سب سے دردناک تھا۔ اپنی کتاب The Mirage of Power میں ڈاکٹر مبشر حسن لکھتے ہیں کہ 2 جولائی 1974 کی صبح جے اے رحیم کا بیٹا سکندر رحیم اپنے ڈریسنگ گاؤن میں میرے گھر آیا اور بتایا کہ اس کے والد صاحب کو بھٹو صاحب کے حکم پر پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ رحیم کے چہرے پر کچھ چوٹوں کے نشانات تھے لیکن وہ چوکنے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب نے انہیں گرفتار کیا تھا اور مجھ سے کہا کہ لاہور جا کر قصوری کو ان کے لئے وکیل کروں اور حبسِ بے جا کی رٹ داخل کرا دوں۔
بھٹو صاحب بدکردار افسران میں گھر گئے
اسی دوران جہاں قریبی ساتھیوں کو جیل کی ہوا کھلائی جا رہی تھی، تمام محکموں کے کرپٹ ترین افراد کو بھٹو صاحب کے قریب کر دیا گیا تھا۔ مسعود محمود ایک بری شہرت کے حامل پولیس افسر تھے، انہیں فیڈرل سکیورٹی فورس کا سربراہ بنا دیا گیا تاکہ بھٹو صاحب کے مخالفین پر نظر رکھی جا سکے۔ یہی مسعود محمود بعد ازاں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں بھٹو صاحب کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا جس کی بنیاد پر ان کو پھانسی دی گئی، جسے آج تک ایک ’سیاسی قتل‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
فیصلہ میرٹ پر نہیں کیا گیا: جج کا اعتراف
جنرل ضیاالحق نے 5 جولائی 1977 کو بھٹو صاحب کا تخت الٹا۔ یہ وہی ضیاالحق تھا جسے بھٹو صاحب نے کئی سینیئر افسران پر فوقیت دیتے ہوئے آرمی چیف بنایا تھا۔ بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان قصوری قتل کیس میں جیل بھیج دیا گیا۔ ان کے خلاف ایف آئی آر نواب محمد احمد خان قصوری کے بیٹے احمد رضا قصوری نے درج کروائی تھی۔ تقریباً دو سال تک مقدمہ چلنے کے بعد بھٹو صاحب کو ایک مشکوک انداز میں سزائے موت سنا دی گئی جب کہ 8 میں سے ایک جج اسپتال داخل تھے جب کہ بقایا 7 میں سے 3 ججوں نے انہیں بری کر دیا تھا۔ ایسی صورت میں دنیا میں کہیں سزائے موت نہیں سنائی جاتی۔ اس بنچ میں شامل جسٹس دراب پٹیل نے چند برس بعد اپنے ایک انٹرویو میں اسے انصاف کا قتل قرار دیا جب کہ کئی برس بعد ایک اور جج جسٹس نسیم حسن شاہ، جنہوں نے بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا تھا، نے جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ یہ فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر نہیں سنایا گیا تھا۔
بھٹو کے عدالتی قتل میں پاکستان کے لئے سبق کیا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ انتہائی ذہین اور متحرک تھے۔ 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس ان کی سفارتکاری کی زبردست صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن اپنے خلاف محلاتی سازشوں کو سمجھنے میں ناکامی اور قریبی ساتھیوں کو خود سے دور کرنے کے فیصلے ان کے سیاسی شعور کو گہنا دیتے ہیں۔ انہوں نے خود کو اس حد تک تنہا کر لیا کہ جب ان کے ملکی اور غیر ملکی دشمنوں نے ان کے خلاف چال چلنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھٹو صاحب بالکل اکیلے تھے۔ ان کے قتل نے پاکستان کو کئی برس کے لئے جہالت کے اندھیوں میں دھکیل دیا۔ ضیاالحق کی پالیسیوں کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
بھٹو صاحب کے زوال کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن حال ہی میں وفات پانے والے ڈاکٹر مبشر حسن کی کتاب The Mirage of Power کا یہ حصہ ہمارے موجودہ اور مستقبل کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے یہی پیغام دیتا ہے کہ حکمرانوں کو کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے ماسوائے عوام کے جو بھٹو صاحب کے ایک اور قریبی ساتھی رفیع رضا کے الفاظ میں کسی بھی سیاستدان کی ’طاقت کا اصل سرچشمہ‘ ہوتے ہیں۔
’بھٹو صاحب کو یہ یقین دلانے کے بعد کہ میں جو کچھ کہنے جا رہا تھا اس میں کہیں کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش نہیں تھی، میں نے ان سے کہا کہ میں پاکستان، پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے مستقبل کے بارے میں بہت فکرمند ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کی طاقت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے ارد گرد جو لوگ تھے وہ کسی صورت ان کی طاقت نہیں بن سکتے تھے۔ جب آپ کمزور ہو جائیں گے تو یہ آپ کو کشتی سے دھکا دینے میں تعمل نہیں کریں گے۔ پچھلے سات برس میں میں نے کبھی پارٹی چیئرمین سے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔
بھٹو صاحب غور سے سن رہے تھے۔ شاید میں انہیں بہت سنجیدہ لگا ہوں گا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘
’میں آپ کو یہ کہنے آیا ہوں کہ آپ دوبارہ سے عوام میں اپنی طاقت کو بحال کرنے کی کوشش کریں‘
وہ چند لمحے کے لئے رکے اور پھر گویا ہوئے، ’ڈاکٹر، جو تم مجھے کرنے کے لئے کہہ رہے ہو، میرے میں وہ کرنے کی طاقت نہیں ہے‘
میں پاکستان کے ذہین ترین اور ملکی تاریخ کے طاقتور ترین وزیر اعظم کے یہ الفاظ سن کر ٹوٹ کر رہ گیا۔ ہم دونوں کافی دیر خاموش بیٹھے رہے۔
خاموشی توڑتے ہوئے میں نے پوچھا، میں ذرا آپ کا فون دیکھ لوں؟ میں نے ٹیلی فون اٹھایا، اپنی جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا، کچھ پیچ ڈھیلے کیے اور اندر سے ایک ٹکڑا نکال کر بھٹو صاحب کی طرف بڑھایا۔
’کیا آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے؟‘ میں نے ان سے پوچھا۔
’نہیں۔ کیا ہے یہ؟‘ انہوں نے جواب دیا۔
’یہ آپ کے فون کو ریکارڈ کرنے کے لئے ہے‘۔
’یہ حرامزادے میرا بھی کرتے ہیں؟‘ انہوں نے یکلخت جواب دیا۔
ایک اور لمبے وقفے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ کہ یہ ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنے فون میں ایسا ہی ایک آلہ دیکھا تھا اور اسے ایک ایکسپرٹ کو دکھایا تھا جس نے اسے کھول کر بتایا تھا کہ یہ ریکارڈنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ہر ایک پر ایک علیحدہ نمبر ہوتا ہے۔
کچھ توقف کے بعد انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو بلایا۔ نصرت آئیں تو انہوں نے یہ آلہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ مبشر کے مطابق یہ میرا فون ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلب کے آگے اس آلے کو رکھ کر کچھ معائنہ کرنے کے بعد بیگم صاحبہ نے کہا کہ یہ تو گھر کے تمام فونوں میں ہے۔
بھٹو صاحب بھونچکے رہ گئے اور ایک وقفے کے بعد اپنی بیوی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا؟
انہوں نے جواب دیا: ’’مجھے نہیں پتہ تھا۔ شاہنواز کو اس کے کمرے والے فون میں ایک آلہ ملا تھا اور اسے لگا کہ آپ نے لگوایا ہے تاکہ اس کی گرل فرینڈز سے اس کی بات چیت کو سن سکیں۔ اس نے پھر تمام ٹیلی فون کھول کر دیکھے اور جب اسے سب میں یہ نظر آیا تو وہ مطمئن ہو گیا‘‘۔
ہم سب کافی دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر میں نے واپسی کی اجازت چاہی۔ یہ بھٹو صاحب کے ساتھ میری سب سے زیادہ افسردہ کر دینے والی ملاقات تھی۔ جو بھٹو نے کہا تھا وہ ماننا مشکل تھا۔ کیا اس کی سطح کا کوئی وزیر اعظم اتنا کمزور، اتنا بے آسرا ہو سکتا تھا یا پھر وہ صرف مجھے چپ کروانے کے لئے ایسا کہہ رہے تھے؟ میں نے پہلی بار انہیں تنبیہ نہیں کی تھی۔ 17 اگست کو لکھے گئے خط میں بھی میں نے انہیں ان کی پالیسیوں کے تسلسل کی صورت میں فوجی مداخلت اور بربادی کے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ بھٹو صاحب کا یہ کہنا کہ جو میں انہیں کرنے کو کہہ رہا تھا، اس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، بالکل نیا تھا۔ وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے والے شخص نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی یہ کہہ کر انہوں نے میرے دل میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کر دی تھی۔ ان کی مدد کیسے کی جا سکتی تھی؟ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے اس اداس شام میرے دماغ میں بس یہی ایک سوال گردش کر رہا تھا۔