بحران پر تحقیقات ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربرا ہی میں تین رکنی کمیٹی نے کیں، جس کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے پلاننگ اور پالیسی کی عدم موجودگی کے باعث ملک میں گندم کا بحران پیدا ہوا اور اس کی ذمہ داری پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری، خیبرپختوخوا کے وزیر خوراک قلندر لودھی، سابق فوڈ سیکریٹری نسیم صادق پر عائد ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گندم کے بحران کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم سب سے بڑی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے پلاننگ نہ ہونا ہے، ان کی جانب سے ملک میں گندم کی فصل کے آغاز سے گندم خریداری کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے 20 سے 22 دن تاخیر سے گندم جمع کرنا شروع کی۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے لیے طریقہ کار بنانے میں ناکام رہا، ڈیپارٹمنٹ نے صورتحال کے پیش نظرفیصلے نہیں لیے اور فلور ملز کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوا، جب کہ فلور ملز مالکان نے پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی پورا نہ کرسکنے کی اہلیت کو جانتے ہوئے فائدہ کمانے کے لیے مہم چلائی۔
رپورٹ میں پنجاب میں گندم کا ہدف پورا نہ کرنے کی ذمہ داری سابق فوڈ سیکریٹری نسیم صادق اور سابقہ فوڈ ڈائریکٹر ظفر اقبال پر ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری پر صورتحال کے پیش نظر فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں اقدامات نہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ داری کسی پر انفرادی طور پر نہیں ڈالی جا سکتی، سندھ کابینہ نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا جب کہ خیبرپختون خوا میں میں گندم خریداری کے ٹارگٹ پورے نہ کرنے پر وزیر قلندر لودھی، سیکریٹری اکبر خان اور ڈائریکٹرسادات حسین ذمہ دار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے ایک رشتہ دار نے آٹے چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے، چوہدری منیر رحیم یارخان ملز، اتحاد ملز ٹو اسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر لک کی ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ پہنچا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چینی بحران میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا اور جہانگیر ترین اور خسروبختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے کس کے دباؤ میں آکر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی؟
خیال رہے کہ جہانگیر خان ترین تحریک انصاف کے اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں جبکہ خسرو بختیار وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور ان کے پاس وزارت تحفظ خوراک اور تحقیق کا قلمدان ہے۔ خسروبختیار کے ایک بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت پنجاب کابینہ میں شامل ہیں اور صوبائی وزیر خزانہ ہیں۔
واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت کے رہنما پر بحران کی ذمہ داری کا الزام لگا چکی ہیں۔
ملک میں چینی و گندم بحران کا پس منظر
جنوری اور فروری میں ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ جس کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بحران پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعظم عمران خان نے گندم کی قلت اور آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس حوالے سے وزیراعظم نے بحران کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی اور وزرا کو بحران کی وجوہات جاننے کا ٹاسک سونپا تھا۔
آٹے کے ساتھ ملک میں چینی کا بحران بھی سر اٹھانے لگا، جس کے باعث وفاقی حکومت نے چینی کی برآمد پر فوری طور پر پابندی لگانے اور چینی کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے چینی درآمد کرنے کی سمری (تجویز) مسترد کرتے ہوئے چینی برآمد کرنے پر بھی پابندی لگا دی۔