شتربےمہار کی طرح بن چکے ہیں۔محترمہ بےنظیر بھٹو کے سفاکانہ قتل کے بعد ہم قیادت سے محروم ہوتے ہیں۔حقیقت کھلتی ہے کہ قیادت کیا ہوتی ہے۔خارجہ پالیسی کیا ہے۔معیشت کیسے چلتی ہے۔پیسہ کے زور پر پارلیمان میں آجانا اور وزیر اعظم بن جانے سے کوئی لیڈر بنتا ہے اور نہ ہی ملک و قوم کی تعمیر کر سکتا ہے۔پہلےہم قائداعظم کے پاکستان کو روتے تھے اب ہم بھٹو کے پاکستان کو رو رہے ہیں۔یہ ہمارا المیہ ہے۔
لطیفہ گوئی میں ہم اقوام عالم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ سنگین سے سنگین واردات بھی باتوں باتوں میں اڑا دیتے ہیں کہ جیسے ہوا ہی کچھ نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ عوام کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے ۔یعنی قیادت کا فقدان ہے۔جن قوموں کے پاس قیادت ہوتی ہے ۔وہ لطیفہ گوئی کے بجائے فکری بحث و مباحثے کرتی ہیں۔
عمران خان سے قبل کئی بھرم تھے۔کہا جاتا تھا کہ نوازشریف میچور ہوچکے ہیں۔آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست کا چرچا تھا۔عمران خان کی سچائی ،بہادری اور دیانت داری مشہور کی گئی تھی۔ بہت شرمیلا سا ہے۔ ریاستی اداروں کی حب الوطنی کا یقین تھا۔کرپشن کے خاتمہ اور عظیم پاکستان کی بازگشت تھی۔عمران خان نے سب کو بے نقاب کردیا ہے۔پہلے جو بات اشاروں میں کی جاتی تھی ۔آج کھلے عام ہوتی ہے۔ ریاست کے کل پرزے ننگے ہوچکے ہیں۔سیاستدان محض کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں اتحاد ، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے او رپھر جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کانوجوان قیادت کے طور پر ابھرنا ۔نئی قیادت نئی امیدیں پیدا ہورہی تھیں۔سب امیدیں غرق ہوئی ہے۔بھرم ٹوٹ گئے ہیں۔بڑے بڑے نعرے ،دعوے یوں زمین بوس ہوتے ہیں کہ جیسے کچی ٹاکی کا شو ختم ہوتاہے۔
آئین ،قانون ، جمہوریت ،نظام اور ریاست کھیل و تماشا بن گیا ہے۔
سیاستدان آپ میں گالم گلوچ کرتے ہیں۔کوئی وژن نہیں ہے۔کوئی بیانیہ نہیں ہے۔اقتدار کی لڑائی ہے۔پاکستان کے ہر شہری پر یہ راز کھل گیا ہے کہ ہم عظیم قوم ہیں اور ہمارے سیاستدان عظیم تر ہیں۔ امریکہ جیسی فوجی سپر پاور سمیت چین جیسی معاشی طاقت ہمارے جوتے کی نوک پر ہے۔ دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔کشمیر ،فلسطین کی آزادی سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو انصاف کی فراہمی ہمارا دینی فریضہ ہے ۔ نمازیں پڑھ کر بدعائیں دیکر اور لعنت بھیج کر ہم یہ فریضہ دیانت اور یکسوئی کے ساتھ ادا کرتے آرہے ہیں۔ عورت مارچ جیسی فحاشی اور بے حیائی سےہماری عظمت کے مینار وں کو خطرات ہیں مگر چار اور پانچ سال کی معصوم بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے سے ہمیں ذرا برابر فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہماری اقدار بالکل متاثر نہیں ہوتی ہیں۔مساجد کے منبر خاموش رہتے ہیں۔کوئی برائی ،بے حیائی اور فحاشی کا شور نہیں اٹھتا ہے۔قیادت کا بحران یہی ہوتا ہے۔
جو قومیں اپنے بھٹوز مار دیتی ہیں ۔جنہیں اپنی قیادت کی قدر نہیں ہوتی ہے۔وہاں پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہم بھگت رہے ہیں ۔ہم بے مرشدی قوم بن چکے ہی ۔ہمارا کوئی مرشد نہیں ہے۔ہم نے اپنے مرشد خود ختم کردیئے ہیں۔