عمران خان کسی جمہوری نظام میں عوامی منصب کے لیے موزوں شخص نہیں: ڈان کا تاریخی اداریہ

04:08 PM, 4 Apr, 2022

نیا دور
قوم ہک دک رہ گئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے وزیراعظم نے بار بار اشارہ دیا تھا کہ ان کے پاس ’ٹرمپ کارڈ‘ ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اور ذرائع ابلاغ عدم اعتماد کے ووٹ میں عمران خان کی شکست کی بلا ججھک پیش گوئی کر رہے تھے تاہم ایسے آثار موجود تھے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود شاید ہی کسی کو اندازہ تھا کہ جمہوری طریقہ کار کی مدد سے اقتدار میں آنے والی جماعت اپنا اقتدار بچانے کے لئے طور پر آخری چال میں جمہوری نظام ہی کو نذر آتش کر دے گی۔

پارلیمانی عمل کو ایک ایسے رہنما کے حکم پر تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا ہے جو مسلسل پارلیمانی عمل کے بارے میں حقارت کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے پاکستان کو آئینی بحران کی تاریک کھائی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ حالیہ واقعات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ کپتان نے بہت پہلے سے یہ گھناؤنا کارڈ کھیلنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ تاہم جس طریقے سے یہ قدم اٹھایا گیا اس سے قوم ایک گہرے صدمے سے دوچار ہوئی ہے۔ ایک خود ساختہ ‘فائٹر’ نے ایسے بے ضابطہ رویے سے اپنی قامت کم کر لی ہے۔ ‘آخری گیند تک کھیلنے’ کے بجائے عمران خان نے کھیل کے قواعد و ضوابط ہی کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ دستور پسندی کو ایسا مہلک دھچکا پہنچا کر عمران خان نے ان بدترین خدشات کو تقویت دی ہے کہ شاید وہ کسی جمہوری نظام میں عوامی منصب کے لیے موزوں شخص نہیں ہیں۔

اتوار کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس سے ایوان میں کارروائی کے تمام ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی، خاص طور پر ایک ایسا ایوان جس میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی۔ اتوار کی کارروائی میں واضح طور پر ایک ناٹک کھیلا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے پاس وزیر اعظم کو بے دخل کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد موجود تھی۔ تاہم، نئے تعینات ہونے والے وزیر قانون اس تحریک کو ووٹ کے لیے پیش کئے جانے سے پہلے ہی آئین کے آرٹیکل 5 کی بنیاد پر ‘اعتراض’ ریکارڈ کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس سادہ سی شق میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ "ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ "

ڈپٹی سپیکر (جنہیں کارروائی کی صدارت کرنی تھی کیونکہ اپوزیشن نے سپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی) نے شرمناک جلد بازی کے ساتھ اس اعتراض کو تسلیم کر لیا۔ اس امر کے کسی ثبوت کے بغیر کہ اس تحریک کا ریاست سے وفاداری سے کوئی تعلق ہے، ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ یہ آرٹیکل 5 سے متصادم ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سپیکر کے نام کی جگہ اپنا نام تک لینے کی زحمت نہیں کی۔

اس سے پہلے کہ قوم اس صدمے کو جذب کر سکتی، اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر وزیراعظم قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے۔ پہلے سے طے شدہ خطاب میں وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد کی ‘ناکامی’ پر قوم کو ‘مبارکباد’ دی اور انکشاف کیا کہ وہ صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے پہلے ہی خط لکھ چکے ہیں تاکہ نئے انتخابات کرائے جا سکیں۔ قبل ازیں وہ آئینی طور پر وہ اسمبلی کو تحلیل نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جا چکا تھا۔ وزیر اعظم کی اس درخواست کو صدر نے، ایک بار پھر غیر مہذب جلد بازی کے ساتھ، تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر قومی اسمبلی کو برخاست کر دیا۔ اگر عمران خان کا اپنے وفاداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار منتخب کرنے کا حیران کن فیصلہ بے اصولی دکھائی دیتا تھا، تو ان کے کل (3 اپریل) کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جس سطح کا رہنما بننے کی خواہش رکھتے ہیں، اس کے لیے ان میں مطلوبہ اہلیت اور تحمل کی بھی کمی ہے۔

وزیراعظم ایک سچے کھلاڑی کی طرح سیاسی کھیل کھیل سکتے تھے۔ انہوں نے آئندہ انتخابی مہم کے لئے جو تند و تیز بیانیہ اختیار کیا تھا اس کی وجہ سے وہ وقتی نقصان کے باوجود مضبوط بن کر ابھرے تھے۔ اس کی بجائے وزیر اعظم نے ملک کو آئینی بحران میں الجھانے کا فیصلہ کیا۔ صدر بھی دانشمندی سے کام لینے میں ناکام رہے۔ صدر نے پورے عمل کی آئینی حیثیت کو دیکھنے کی بجائے عمران خان کے وفادار کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے جانبدارانہ فیصلے سے اپنے منصب کے وقار کو نقصان پہنچایا۔

اب معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد ہو چکا ہے۔ دریں اثنا، کچھ حلقے اس بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے کافی بے چین نظر آتے ہیں کہ چونکہ نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، اس لیے معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ ان عناصر کا کہنا ہے کہ حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ میں نئی قیادت کا قیام تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا چنانچہ حالیہ اقدامات کو ان مطالبات کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔ تاہم، اس استدلال کی ہر سطح پر مزاحمت کی جانی چاہیے کیونکہ اس کی مدد سے غیر آئینی اقدام کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ سپریم کورٹ اس ناانصافی پر داد رسی کرے گی اور تمام فریقین کو باور کرائے گی کہ اقتدار پر فائز رہنے کا جائز راستہ صرف دستور کی پاسداری ہے۔ اس سے ہٹ کر اٹھایا گیا کوئی بھی قدم ناقابل قبول ہوگا۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 4 اپریل 2022 کو شائع ہوا۔ (ترجمہ: وجاہت مسعود)
مزیدخبریں