طاقت کے حصول کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری کشمکش پر ہمیں تشویش ہے کیونکہ اس سیاسی کشمکش کے دوران عوام کی مشکلات کو صرف بیان بازی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور ملک کی بہتری حقیقتاً کسی کا بھی مطمع نظر نہیں۔ گو کہ ہمیں نہیں لگتا کہ اس سیاسی میوزیکل چیئرز کے کھیل سے حقیقی تبدیلی ممکن ہے، مگر تحریکِ انصاف کا اپنی طاقت کو قائم رکھنے کے لئے اسمبلیوں کو تحلیل کرنا اور آئینِ پاکستان کی سنگین خلاف ورزی ایک فسطائی عمل ہے جس کی مذمت کرنا لازمی ہے کیونکہ یہ مستقبل میں ایک غلط مثال بن سکتا ہے۔
کراچی کی ہماری بہنوں کی طرف سے جاری کردہ بیان پر آنے والا متعصبانہ ردعمل ہمارے لئے حیرت انگیز ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ عورت مارچ کو قومی اہمیت کے حامل معاملات پر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے اور ہماری توجہ صرف اپنے معاملات پر ہونی چاہیے۔ کیا خواتین اور صنفی اقلیتوں کی زندگیاں آئین اور عالمی سیاست سے بالاتر ایک خلاء میں وجود رکھتی ہیں؟ گذشتہ 5 سالوں میں ہمارے بیانات اور منشور کے ذریعے ہم طاقت کے اسی نظام کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔ کیا ہم ان ہی قانون ساز اسمبلیوں، افسران، وزرائے اعلیٰ اور عدالتوں سے اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ نہیں کرتے اور جب یہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو کیا ہم ان پر تنقید نہیں کرتے؟
عورت مارچ کسی سیاسی جماعت، این جی او اور کارپوریشن سے نہ ہی فنڈز قبول کرتی ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن ہماری کوئی سیاسی وابستگی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم میں سیاسی شعور نہیں۔ ہم سیاسی عمل میں شریک ہوتے رہیں گے، ناصرف اس لئے کہ یہ ہماری زندگیوں اور ہمارے تحفظ پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ ہم اپنے سے پہلے آنے والی فیمینسٹس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سیاسی طاقت کے محور اداروں کے سامنے کھڑے ہونے اور ان حکمران طبقات کے پیش کردہ نظام کے متبادل ایک معاشرہ اور سیاسی نظام پیش کرنے سے نہیں گھبراتے۔
آج قومی سطی پر آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 5 اور 6 کا بہت ذکر سننے میں آ رہا ہے، مگر ہمارے بنیادی حقوق کا کیا جو یہی آئین ہمیں دیتا ہے اور جس کی حرمت کو اب تک کی کوئی بھی حکومت قائم نہیں رکھ سکی؟ ہماری ذاتی پسند نا پسند مختلف ہو سکتی ہے، مگر یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔ ایسے قومی اور عالمی واقعات جن کے اثرات ہم سب پر ہوں، اُن پر خاموشی اختیار کرنا ناعاقبت اندیشی ہے اور یہ خواتین، فیمینسٹ اور ان کی تحاریک کو گھریلو اور خواتین کے معاملات تک محدود رکھنے کی دقیانوسی سوچ کی عکاس ہے۔ ہم اس نظریے کو مسترد کرتے ہیں کہ ایک تحریک کو سیاست سے ماورا ہونا چاہیے۔
ہمارا مارچ کرنے، اپنی آواز بلند کرنے اور سیاسی حقوق کے حصول کے لئے منظم جدوجہد کا حق سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ عزت کے نام پر ہونے والے جرائم، سائبر قوانین، گھریلو تشدد، رہائش، وقار اور صحت کے حق پر ہماری تنقید بھی سیاسی عمل ہے کا حصہ۔ کوئی بھی تحریک ہمیشہ سیاسی ہی ہوتی ہے۔ ذات سیاست سے ماورا نہیں ہو سکتی۔
https://twitter.com/AuratMarch/status/1511042236343017473