امریکہ کی پچھلی تین صدیوں پر محیط تاریخ میں دیکھا جائے تو امریکہ کو اندرونی محاذ پر دو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا؛ ایک 1860 کی دہائی میں شروع ہونے والی خانہ جنگی اور دوسرا 1930 کے دور کی معاشی بدحالی جس کو امریکی 'گریٹ ڈپریشن' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ امریکہ کو خانہ جنگی کے دور میں ابراہم لنکن کی صورت میں ایک عظیم رہنما ملا جس کی بدولت امریکہ تقسیم ہونے سے بھی بچ گیا اور اپنے سیاسی و جمہوری نظریات کو بھی بچانے میں کامیاب ہو گیا۔
گریٹ ڈپریشن کے دور میں امریکہ کو فرینکلن ڈی روزویلٹ جیسا مدبر رہنما ملا جس نے امریکہ کو اقتصادی بحران سے نکال کر معاشی اور سیاسی طور پر اس قدر مضبوط کر دیا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر یورپی طاقتوں کی تباہی کے نتیجے میں دنیا کی سربراہی کی کمان سنبھالنے کے قابل ہو چکا تھا۔ دوسری جانب امریکہ سوویت روس جیسی بڑی اور مضبوط فوجی طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے لیے کمر کس چکا تھا۔ صدر روزویلٹ امریکہ کے واحد صدر ہیں جن کو مسلسل چار مدتوں کے لیے صدررہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ امریکی قوم نے مشکل حالات سے نکلنے کے لیے اس بڑے رہنما کے لیے اپنے قانون اور اصول تک بدل دیے اور پھر اس رہنما نے امریکہ کو دنیا کی طاقتور ترین عالمی طاقت بننے میں اس کی مدد کی۔
بدنصیب اور پسماندہ ریاستوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ان کی جہالت نے ان کے عظیم رہنماؤں کو مارا ڈالا۔ عظیم لیڈر کبھی بھی طبعی موت نہیں مرتا، اس کی قوم کی جہالت اس کا خون کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد غلامی کا طوق اس قوم کا مقدر بن جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو وہ لیڈر تھے جنہوں نے ملک کے نازک ترین دور میں ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ایک مایوس، ہاری ہوئی اور منزل سے ناآشنا قوم کو ایک راستے پر لانے کی کوشش کی۔
سیاسی اور تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو محمد علی جناح کا پاکستان تو 1971 میں ہی ٹوٹ گیا تھا اور جس نظریے پر پاکستان بنا تھا وہ ایک اسلام اور دین کو ماننے کے باوجود مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو ایک ملک میں یکجا نہ رکھ سکا۔ اس صورت میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نئے اور موجودہ پاکستان کی بنیادوں اور اس کی سمتوں کا تعین بھٹو صاحب کے مرہون منت ہے۔ بھٹو صاحب کے سیاسی اور معاشرتی کارناموں پر تو تاریخ میں کافی ذخیرہ موجود ہے مگر ایک کام جو ان کو ممتاز کرتا ہے وہ پاکستان کی قومی، سیاسی اور معاشرتی سمت کا تعین کرنا تھا۔ متفقہ آئین منظور کروا کر انہوں نے قوم کو ایک آئینی اور جمہوری راستے پر ڈال دیا تھا اور یہی ایک عظیم رہنما کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
بات امریکہ سے چلی تھی اور بھٹو صاحب تک آ پہنچی ہے تو اب بات کو بھٹوصاحب سے امریکہ تک لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے جس پر پاکستان کی قوم آہستہ آہستہ اکٹھی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کو ضیاء الحق کے ایما پر پھانسی کی سزا دی گئی اور اس قتل کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ امریکہ جو خود معاشرتی نا انصافیوں اور سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کرتا ہوا ایک عظیم مملکت بنا تھا، کیا اس نے ایک غریب ملک کے عظیم لیڈر کو مروانے کے جرم میں واقعی حصہ لیا تھا؟
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر مغربی طاقتوں کو دو بڑے چیلنج درپیش تھے؛ ایک سوویت روس کی مغربی یورپ پر یلغار اور دوسرا دنیا میں کمیونزم کا پھیلاؤ۔ کمیونزم کے نظریات کو سوویت روس اپنی ریاستی پناہ میں لے کرعالمی بالا دستی کے لیے استعمال کر رہا تھا لہٰذا امریکہ کے لیے یہ جنگ ایسی نوعیت اختیار کر گئی کہ جہاں جہاں کمیونزم ہے وہاں روس ہے اور جہاں روس ہے وہاں کمیونزم ہے۔ 1945 کے بعد سے امریکہ اور روس کی عالمی بالادستی کی بظاہر سرد جنگ میں غریب اور پسماندہ ملکوں کا بڑا نقصان ہوا۔ اس جنگ میں دنیا کے بیشتر ممالک کے عظیم رہنماؤں کی حکومتوں کے تختے الٹے گئے اور ان کو ناحق مارا گیا۔ ایسے موقعوں پر اکثر کہا جاتا ہے کہ بڑوں کی لڑائی میں اکثرغریب مارے جاتے ہیں۔
امریکہ نے اس جنگ میں ویت نام سے لے کر گوئٹے مالا تک اپنے سامراجی نظام کو دنیا پر مسلط کرنے کے لیے اقوام عالم میں خون کی ہولی کھیلی جس کی زد میں پاکستان بھی آیا۔ پاکستان میں پہلے منتخب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کا قتل اسی عالمی طاقتوں کی باہمی جنگ کا نتیجہ تھا جس نے پاکستان کی مذہبی جہالت، فوجی رعونیت اور معاشرتی بے حسی کو استعمال کرتے ہوئے انصاف دینے والوں کے ہاتھوں بھٹو صاحب کا ناحق قتل کروایا۔
امریکہ اور روس کی 'سرد' جنگ کا آخری معرکہ جنوبی ایشیا میں واقع ہوا جب افغانستان کی کمیونسٹ اور روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکومت نے روس سے فوجی مداخلت کی درخواست کی جس کے بعد روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس کے بعد روس کو توڑنے کے لیے امریکہ کے ہاتھ میں ایک تاریخی اور سنہری موقع آ گیا جس کو وہ کسی صورت بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ امریکہ یہ سب کچھ کبھی بھی بھٹو صاحب جیسے سوشلسٹ اور نیشنلسٹ لیڈر کے ہوتے نہیں کر سکتا تھا۔ امریکہ روس اور کمیونزم کے خلاف جنگ پاکستان اور ایران جیسے اسلامی ملکوں کے تعاون کے بغیر نہیں جیت سکتا تھا۔
یہ ایک غیر روایتی جنگ تھی جس میں مذہب کو سب سے بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال ہونا تھا اور جس کا انجام مذہبی جنونیت اور دہشت گردی پر ہونا تھا۔ ان بھیانک نتائج کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی قومی لیڈر اس جنگ کا حصہ کبھی نہ بنتا۔ اسی لیے بھٹو صاحب کو راستے سے ہٹانا امریکہ کی سامراجیت کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنی قید کے دوران بھی اس جنگ میں شامل ہونے کی سوچ کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس لیے غریب اور ناسمجھ قوم کو اس کے دوراندیش رہنما سے جدا کرنا ضروری تھا۔ امریکہ اور روس کی افغانستان میں جنگ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان اور ایران دونوں ملکوں میں سخت گیر مذہبی نظریات کی آمریت تھی۔ کیا تاریخ کا طالب علم بھی اسے محض اتفاق ہی سمجھ کر آگے گزر جائے؟