خوف کا حصار: 'کیوں چُکے جانڑ والے کم کرنی ایں؟'

06:09 PM, 4 Aug, 2018

افشاں مصعب
مجھے بات 29 اپریل 2018 مینار پاکستان جلسے کے وقت پیش آئے واقعہ سے کافی پیچھے جا کر شروع کرنی پڑے گی۔ اکتوبر 2014 عید الاضحٰی کا آخری روز پارلیمینٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لگا سرکس دیکھتے گزرا۔ یہاں قادری دھرنے کی تصاویر اتارتے ہوئے ایک خاتون جو کافی دیر سے پیچھا کر رہی تھیں، نے آ کر پکڑ لیا کہ کس کی اجازت سے تصاویر بنائی جا رہی ہیں۔ اس بندی سے تو جیسے بھی کر کے جان چھڑوائی لیکن اس کا جملہ ناقابلِ فراموش رہے گا "ہمارے قائد نے جو گند اس پارلیمان کے سامنے لا کر پھیلایا ہے وہ تم لوگ سو برس بھی سمیٹ نہیں سکو گے۔" بہرحال خان صاحب کےدھرنے کے مقام پر وہی افراد تھے جو دوسرے شہروں سے لائے گئے تھے۔ رش نہیں تھا۔ جونہی احساس ہوا کہ کچھ لوگ مسلسل نگرانی کر رہے ہیں تو تیز قدموں سے پارکنگ کی جانب چلتے ایک صاحب نے راستہ روک لیا اور تعارف کروایا کہ تحریکِ انصاف کے کنٹرول روم انچارج ہیں اور یہ کہ صبح سےمانیٹر کیا جا رہا تھا۔

https://www.dailymotion.com/video/x26mwai

مشکوک جگہوں سے مشکوک تصاویر

"میں آپ کوخواتین کے انکلوژر میں لے جا رہا ہوں وہاں آپ کی جامہ تلاشی ہوگی اور اپنا کیمرہ اور سیل فون پکڑائیں ادھر۔ سب ڈیلیٹ ہوگا۔ کس نےاختیار دیا کہ مشکوک جگہوں سے مشکوک تصاویر کھینچیں؟ یہ جگہ ہماری ہے۔"

میرے انکار پر ان صاحب نےخاتون کو بلوا لیا اور راستہ روک کر کھڑے ہو گئے "کِس کی ایجنٹ ہو؟ بلواؤ یار اس شکیل کو۔" اس صورتحال کو سخت لہجے اور آواز بلند کر کے سنبھال کر وہاں سے نکل آئی۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا جس کو کسی بھی طور تنبیہہ کا اشارہ نہیں سمجھی۔

بشکریہ فرائڈے ٹائمز


لاکڈ گاڑی سے پشتون چادر اور سٹیریو ٹیپ پلیئر چرا لی گئی

دوسری دفعہ میریٹ ہوٹل کی عقبی دیوار کے ساتھ پارک میری لاکڈ گاڑی سے پشتون چادر اور سٹیریو ٹیپ پلیئر چرا لی گئی اور جاتے ہوئے پیسنجر سیٹ کا شیشہ مکمل نیچے کر کے جانا نہیں بھولے۔ میں اس کو بھی چوری کی معمولی واردات سمجھ کر ذہن سے جھٹک گئی۔

'خبردار اس عورت کو ایک لفظ بھی کسی نے کچھ بولا تو'

قادری صاحب نے ڈی۔چوک سے رخصت لی تو شرکاء کا احوال سمجھنے اپنے معمول سے کچھ گھنٹے پہلے چلی گئی اور مختلف لوگوں سے بات چیت ریکارڈ کرتی رہی۔ اس دوران دو 'رضا کار' غیر محسوس طریقے سے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر سفاری سوٹ میں ملبوس دو صاحبان اس دائرے کو چیرتے آگے بڑھے جو اپنا مدعا ریکارڈ کروا رہا تھا، انہوں نے آتے ہی دو نوجوانوں کو تھپڑ رسید کیے اور میرے ہاتھ سے سیل فون چھین لیا۔ رعب دار آواز سے پریس کارڈ مانگا تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نے اپنا تعارف ہرگز رپورٹر یا صحافی کے طور پر نہیں کروایا۔ ایک محافظ نے میرے پیچے کھڑے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور غرایا کہ خبردار اس عورت کو ایک لفظ بھی کسی نے کچھ بولا تو۔

'خان ہی فیصلہ کرے گا اب تمہارا کیا کرنا ہے'

میں اس وقت تک کرسی سے اٹھ چکی تھی اور اپنا سیل فون ان صاحب کی مٹھی سے اُچک کر اپنے ہینڈ بیگ میں پھینک چکی تھی۔ شناختی کارڈ مانگا گیا اور پیش کرنے پر جھپٹ کراپنی مٹھی میں بند کر لیا گیا۔ فون پر کسی کو اطلاع دیتے بلوایا جا رہا تھا۔ اس دوران کہتی رہی کہ میرا کارڈ لوٹائیے۔ لیکن دوسرے صاحب دھمکاتے رہے کہ "سب ڈیلیٹ ہوگا۔ جرات کیسے ہوئی بغیر اجازت اندر گھسنے کی۔" مجھے چند سیکنڈز لگے کہ اپنا شناختی کارڈ فون پر مصروف شخص کے ہاتھ سے چھینا اور قریب ہی کھڑی اپنی گاڑی میں جا بیٹھی۔ جونہی گاڑی سٹارٹ کر کے ریورس کی، تو ایک رضاکار نوجوان نے فرنٹ ڈور کھول کر چابیاں نکال لیں۔ "خان ہی فیصلہ کرے گا اب تمہارا کیا کرنا ہے۔ نہیں تو جو فوٹو اور وڈیو بنائی ہیں سب ڈیلیٹ کر ہمارے سامنے۔" اور تب ہی واکی ٹاکی پر مصروف سفاری سوٹ میں ملبوس اس شخص نے آواز لگائی "جانے دو، اتنا سبق کافی ہے۔" اور میری گاڑی کا نمبر کہیں نوٹ کروانے لگا۔ پارلیمنٹ لاجز سے چند قدم آگے میری گاڑی بڑھی تو ایک ٹویوٹا کرولا پیچھے تھی جس نے آبپارہ چوک تک پیچھا کیا۔ مقصد شاید مجھے تنبیہہ کرنا تھا۔



'اس کو سمجھائیں سیاستدان خواتین کا ریپ کرتے ہیں'

یہ دن بھی گزر گئے۔ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا کہ جن دنوں میں پانامہ کیس کی سماعت سمجھنے سپریم کورٹ جا رہی تھی تو ایک نیوز چینل کے ملازم کے ذریعے میرے والد کو کہا گیا کہ اپنی بیٹی کو روکیں، یہ کون سے کاموں میں پڑ گئی ہے۔ سیاست میں دلچسپی کم کروائیں۔ اس کو سمجھائیں سیاستدان خواتین کا ریپ کرتے ہیں اور اسی قسم کی فضول باتوں سے والد کو پریشان کیا گیا۔ یہ میرے لئے تکلیف دہ تھا کیونکہ میرے والد کا شمار بھی انہی پاکستانیوں میں ہوتا ہے جن کی عمر بھر کی کمائی صرف بچوں کی تعلیم، تربیت اور حلال روزگار ہی ہوتا ہے۔ وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہی لیکن ایک خوف جو اس معاشرے کے ہر شریف انسان کے دل میں بِٹھا دیا گیا ہے، اس کا کیا کیجئے؟

ریاست نے ہم شہریوں کو فیض آباد دھرنے کے حوالے سے مایوس کیا

درمیانی واقعات کو اگر میں فاسٹ فارورڈ کر کے فیض آباد دھرنے تک آؤں اور وہ دن بھی فراموش کر دوں جب پانچ سات گھنٹوں تک ہائی وے پر گاڑیوں کی طویل قطاروں میں بچے اور خواتین بھی نومبر کی سردی میں راستہ بند ہونے پر گھروں میں اطلاع کرتے رہے اور اندر کے راستوں سے بھٹکتے آدھی رات گھر پہنچے تو بھی بتانے کو بہت کچھ ہے۔ گذشتہ برس اس ملک کے دارالحکومت پر ہوئی اُس یلغار کا جائزہ لینے کے لئے مجھے راولپنڈی سے جا کر آئی۔جے۔پی روڈ کے عین وسط میں قائم خادم رضوی کے عشاق کی بنائی چیک پوسٹ پر گاڑی پارک کر کے پیدل جانا پڑا۔ کیونکہ راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والا فیض آباد پُل اور شاہراہیں ہر سمت سے نگرانی اور پہرے داری کے لئے ایک ڈنڈا بردار جنونی ٹولے کے سپرد تھیں۔ ریاست نے ہم شہریوں کو جتنا مایوس اس دھرنے کے حوالے سے کیا اس کے اثرات شاید اگلی دو دہائیوں تک بھی لاشعور سے محو نہ ہو پائیں۔



ایک قبضہ گروپ کا اجازت نامہ حاصل کرنا پڑا تو کچھ "صحافتی" حلقوں کی جانب سے الٹا مجھ پر حملہ کیا گیا

بہرحال پہلے روز ہی اس دھرنے کے چیف کنٹرولر تک رسائی حاصل کر کے ان کا انٹرویو انہی کی مرضی سے ریکارڈ کر کے استدعا کی کہ ایک "اجازت نامہ" عطا کر دیجئے تاکہ روزانہ آپ کی "چوکیوں" پر مسئلہ نہ ہو اور گاڑی اندر لانے کا بھی بندوبست ہو جائے۔ چیف کنٹرولر فیض آباد دھرنا نے اپنے لیٹر ہیڈ پر اجازت نامہ لکھ کر مہر ثبت کر دی۔ اسی اجازت نامے کی برکات کی بدولت دو روز دھرنے سے مواد اکٹھا کیا اور پھر جونہی آخری شام سوشل میڈیا پر سب پوسٹ کرنے سے پہلے ریاست کے آگے نوحہ کناں ہوئی کہ مجھے اس شہر میں آمد ورفت کے لئے ایک قبضہ گروپ کا اجازت نامہ حاصل کرنا پڑا تو اس پر کچھ "صحافتی" حلقوں کی جانب سے جس طرح الٹا مجھ پر حملہ کیا گیا وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگلی صبح مجھے ایک خیرخواہ نے فون کر کے بتایا کہ رات گئے تک جو وڈیوز اور تصاویر پوسٹ کی ہیں وہ سب کا پرنٹ آؤٹ دھرنے میں پہنچ چکا ہے اور جلالی کیفیت طاری ہے۔ یہ فرض کِس نے ادا کیا، اللہ بہتر جانتا ہے۔ تنبیہہ کی گئی کہ ہرگز اس دھرنے کے بارے میں کوئی بات نہ کروں۔ باز نہ رہنے کی صورت میں جو بھگتا وہ ابھی تک ٹوئٹر ریکارڈ پر ہے۔

ایک صاحب گردن میں کیمرہ لٹکائے قریب پہنچے اور میرے سر پر نارنجی دستار کا مقصد پوچھنے لگے

پشتون تحفظ تحریک نے موچی گیٹ، لاہور میں جلسے کا اعلان کیا تو عصمت شاہجہان صاحبہ کی فون کال پر مجھے ہر صورت وہاں پہنچنا ہی تھا۔ میں جلسہ گاہ ڈھائی تین بجے پہنچی ہوں گی شاید۔ سورج کی تپش کافی زیادہ تھی۔ نوجوان ٹولیوں میں اکٹھے ہو رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ ان سب کی تصاویر اور وڈیوز بناتے ہوئے ایک صاحب گردن میں کیمرہ لٹکائے قریب پہنچے اور میرے سر پر نارنجی دستار کا مقصد پوچھنے لگے کہ کون سی تنظیم سے ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف سوالات کی بوچھاڑ کر دی جن میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ میں اس تحریک کے بارے میں کیا سوچتی ہوں اور کِس کے مدعو کرنے پر آئی ہوں۔ نہایت تقفتیشی انداز تھا اور جب ان سے پوچھا کہ بھیا آپ کہاں سے ہیں تو اللہ جانے کون سے چینل کا حوالہ دیا جو کہ میں نے کبھی دیکھا یا سنا نہیں تھا۔



عمران اسماعیل کا سر سنگیت شروع ہوا تو مجھے نکلنے میں ہی عافیت دکھائی دی

اپریل کی 29 تاریخ لاہور میں ایک تاریخی جلسہ تھا۔ میں فیملی انکلوژر تک کیسے پہنچی اور کتنی دفعہ پاؤں زخمی کروایا وہ سب الگ داستان ہے۔ سٹیج پر تقاریر طویل ہوتی جا رہی تھیں اور لوگ پنڈال سے نکلتے جا رہے تھے۔ جونہی عمران اسماعیل کا سر سنگیت شروع ہوا مجھے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت دکھائی دی۔ گریٹر اقبال پارک کے گیٹ نمبر ایک تک پہنچنے میں مجھے شاید پندرہ منٹ لگے کیونکہ راستے میں واپس جانے والوں کی وڈیوز بنا رہی تھی۔

'صاحب کہہ رہے ہیں فوراً یہاں سے ہٹ جاؤ'

گیٹ کے اندر کی جانب خواتین پولیس اہلکاروں کا کیمپ تھا تو وہی روشن اور محفوظ جگہ سمجھتے ہوئے جنگلے کا سہارا لیے گھر اطلاع کی اور کریم رائڈ بُک کی، متبادل راستوں کے باعث قریب ترین کریم رائڈ 29 منٹ کی دوری پر تھی۔ لہٰذا مجھے انتظار کرنا تھا۔ اس دوران جلسے کے شرکاء کی بڑی تعداد مسلسل واپس جا رہی تھی۔ میں یہ وڈیوز بنا کر ساتھ ہی ٹوئٹر پو پوسٹ کرتی جا رہی تھی اور میرے ساتھ کھڑی نوجوان پولیس اہلکار اپنی چادریں اور عبائے پہن رہی تھیں۔ یہ پرعزم بچیاں آپس میں وہی گفتگو کر رہی تھیں جو ہمارے ہاں ہر دفتر اور محکمے کی خواتین پیشہ وارانہ مسائل پر کرتی ہیں۔ میں نے دوبارہ اپنی رائڈ کی لوکیشن چیک کی اور پھر وڈیوز بنانے لگی، کہ ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور اندر کھڑی پولیس موبائل میں بیٹھے شخص کو بتانے لگا کہ باہر کیمرہ مین جانے والوں کی فوٹیج بنا رہا ہے۔ کچھ دیر بعد وہی لڑکے کی سربراہی میں ایک ٹولہ نعرے لگاتے گیٹ سے واپس اندر داخل ہو رہا تھا اور کیمرہ مین بھی الٹے قدم انہیں ریکارڈ کرتے اندر چلا آیا۔ میں مسکرا دی۔ اس دوران ایک پولیس اہلکار آیا اور غصے میں مجھے وہاں سے ہٹنے کا کہا۔ نرمی سے انہیں بتایا کہ یہاں روشنی ہے اور گیٹ سے باہر کھڑا ہونا کچھ مناسب نہیں ہوگا۔ لیکن جب اس اہلکار نے کہا "صاحب کہہ رہے ہیں فوراً یہاں سے ہٹ جاؤ" تو میں گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ اور کیپٹن کو کال ملا کر گیٹ نمبر ایک کا بتا ہی رہی تھی کہ سادہ لباس ایک شخص پنجاب پولیس کے دو اہلکاروں کے ساتھ آن پہنچا اور تفتیش شروع کر دی، پریس کارڈ مانگا اور انکار کرنے پر اگلا سوال تھا کہ 'یہ وڈیوز اور تصاویر ابھی تلف کرو، تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تم خود کو نذیر ناجی کے لیول کا صحافی سمجھتی ہو؟'



'تم مسلسل صاحب کے راڈار پر آ رہی ہو'

میرے پاس صرف ایک جواب تھا کہ اس جلسے میں بقول لاڈلے اور کچھ میڈیا ہاؤسز کے لاکھوں شرکاء ہیں، پہلے ان کے سیل فونز سے سب کچھ تلف کروائیں۔

"بی۔بی تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ تم مسلسل صاحب کے راڈار پر آ رہی ہو؟" اور جب میں نے تنک کر جواب دیا کہ مجھے پتہ چل چکا ہے کیوں راڈار پر ہوں تو طنزیہ مسکراہٹ سے جواب آیا، "تو بتاؤ، تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ تمہیں پتہ ہے کِس وجہ سے راڈار پر ہو؟ کیا کر رہی تھیں تم موچی گیٹ جلسے میں؟"

پولیس اہلکار ہاتھ بغل میں دبائے، میرے ساتھ ایک قدم پیچھے چلنے لگے

سادہ کپڑوں میں یہ صاحب مسلسل بول رہے تھے اور پنجاب پولیس کے دونوں اہلکار خاموشی سے پیچھے کھڑے تھے۔ میں اپنا سیل فون ہینڈ بیگ میں پھینک چکی تھی لیکن ان کو اصرار تھا کہ "سب کچھ تلف ہوگا تو ہی یہاں سے جا سکو گی۔ کال کرو کون ہے تمہارے پیچھے؟" میں نے انہیں تسلی سے جواب دیا کہ بھائی سب کچھ ٹوئٹر پر ساتھ ہی اپلوڈ ہو چکا ہے تو اپنے سیل فون سے جان بوجھ کر میرا ٹوئٹر ہینڈل ٹائپ کرنے لگے۔ اور شناختی کارڈ مانگنے لگے۔ لوگ یہ آوازیں سن کر گیٹ سے باہر جانے میں سست قدم ہو رہے تھے لیکن انہیں ہانکا جا رہا تھا۔ شناختی کارڈ پکڑانے پر ان صاحب نے اپنے سیل فون سے اس کو کیپچر کرنے کی تیاری کی لیکن میں ان کی ہتھیلی سے کارڈ جھپٹ چکی تھی۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے۔ آخری حربے کے طور پر آواز کافی بلند کر کے جب میں نے ان سے نام اور ادارے کا پوچھا تو جواب تھا کہ ابھی تو تفتیش ہوگی بی۔بی۔ میں نے کیپٹن کو کال ملائی اور جان بوجھ کر اونچی آواز میں بات کرتے گیٹ سے باہر نکلی لیکن عین اسی وقت دونوں پولیس اہلکار ہاتھ بغل میں دبائے، میرے ساتھ ایک قدم پیچھے چلنے لگے۔ راستہ بند ہونے کی وجہ سے مجھے مین روڈ پار کر کے دوسری جانب جانا تھا اور یہ دونوں مجھے ہراساں کرتے ساتھ چلتے رہے۔ بالآخر پلٹ کر انہیں صرف اتنا کہا "مجھے آپ سے ڈر نہیں لگ رہا۔۔۔" تو خباثت بھرا قہقہ سنائی دیا لیکن میں تاخیر کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔

میری گاڑی کو ایک گاڑی نے ریورس گئیر میں خراشیں لگائیں اور ڈرائیور صاحب دانت نکوستے رہے

مجھے واقعی ان چار برسوں میں کسی بات سے ڈر یا خوف محسوس نہیں ہوا، تب بھی نہیں کہ جب پارکنگ میں کھڑی میری گاڑی کو ایک گاڑی نے ریورس گئیر میں خراشیں لگائیں اور ڈرائیور صاحب دانت نکوستے رہے۔ انہیں ڈانٹنے پر ایک 'سرکاری افسر' جو بقول ان کے جاگنگ پر نکلے ہوئے تھے مجھے عزت و تکریم سکھانے پہنچ گئے۔ میری والدہ نے اپنی گرم ہتھیلی اس وقت میرے بازو پر رکھ کر لیکن اپنا خوف، اپنی اولاد کے لئے ڈر کا جو احساس دلوایا وہ لمحہ میں الفاظ میں بیان نہیں کرپاؤں گی۔

'کیوں چُکے جانڑ والے کم کرنی ایں؟'

حالات یہ ہیں کہ اب والدہ کی صحت ایک دن سوشل میڈیا کے لئے وقت نہ دے تو احباب پریشان ہو کر رابطہ کرتے ہیں، بغیر فلٹر اور سینسر لگائے کوئی کڑوا سچ پوسٹ کر دو تو خیر خواہ الگ سے میسج کر کے ایک ہی بات کرتے ہیں، "کیوں چُکے جانڑ والے کم کرنی ایں؟" گذشتہ برس بلاگرز اور پھر ٹوئٹر سے ایک ہی سیاسی جماعت کے سپورٹرز کے خلاف بغیر ٹھوس بنیاد کے کارروائیوں کے دوران ہر دفعہ دوست احباب مشورہ نہیں بلکہ ڈانٹ کر نصیحت کرتے رہے کہ "تم ہتھ ہولا رکھو۔"

"مت بولو جو بھی ہو رہا ہے۔۔"

"افشاں تم جمہوریت اور سیاسی منظر نامے کے علاوہ دوسرے ہلکے پھلکے موضوعات پر بات کرو۔"

یہاں مشال خان سے لے کر فیض آباد دھرنے اور سیالکوٹ میں احمدی عبادت گاہ پر حملے تک کسی بھی معاملے پر لب کشائی کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ قریبی جاننے والے بھی بہانے سے عقیدے کی پرکھ کرنے لگتے ہیں۔

صحافی برادری نے اپنے پیٹی بھائیوں کے لئے سٹینڈ لے لیا لیکن ان بچوں کی کسی کو فکر نہیں ہوئی

ایک پریس کانفرنس ہوتی ہے اور وہاں میرے دوستوں کو "مربوط نیٹ ورک" اور غدار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ صحافی برادری نے اپنے پیٹی بھائیوں کے لئے سٹینڈ لے لیا لیکن ان بچوں کی کسی کو فکر نہیں ہوئی جو کبھی اینٹی سٹیٹ تو کیا کسی ایسی تحریک پر بھی نہیں لکھتے بولتے جس کو ہمارے معزز ادارے "بیرونی ایجنڈا" گردانتے ہیں۔ گُل بخاری الحمدللہ گھر واپس پہنچا دی گئیں، ان کی طبیعت اور مزاج انہیں زیادہ دن خاموش نہیں رہنے دیں گے لیکن یہاں مجھے اپنی ماں کی گرم ہتھیلی کا لمس یاد آتا ہے۔ اپنوں کو تکلیف کا ڈر انسان کو وقتی طور پر خاموش ہونے یا مصلحت کے تقاضوں کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ یہ ایسا نادیدہ خوف ہے جو ہمارے عزیز ترین دوستوں کو مشکل وقت میں ساتھ دینے سے روک دیتا ہے۔

جمہوریت اور بنیادی انسانی و شہری حقوق کی بحث کو 'بیرونی ایجنڈا' کہہ کر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے

لاقانونیت اور دھونس زبردستی والی کسی بھی پالیسی پر تنقید ہمارے ہاں غداری بنا دی گئی ہے۔ مذہب کارڈ کے کند ہتھیار سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ سچ لکھنے سے بہتر خاموشی کی زبان سمجھی جانے لگی ہے۔ جمہوریت اور بنیادی انسانی و شہری حقوق کی بحث کو 'بیرونی ایجنڈا' کہہ کر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کو ہر قسم کے القابات اور عوام کے منتخب نمائندوں کو مافیا کہہ کر تذلیل جائز ہے لیکن ایسا کرنے والوں کے لئے کوئی اشارہ یا استعارہ بھی گستاخی کے زمرے میں لکھا جاتا ہے۔ شہریوں کی جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، تشدد اوراداروں کی جانب سے آئینی اختیارات سے تجاوز پر بات کرنے والوں کو خاموش رکھنے یا پھر غائب کر دیے جانے سے بڑھ کر کوئی نیا حربہ آزمانا ہوگا، کیونکہ شور بڑھتا چلا جا رہا ہے عالیجاہ ۔ اور احترام و خوف کا حصار ٹوٹتا چلا جا رہا ہے۔
مزیدخبریں