ایک طرف ’ووٹ کو عزت دو‘ کا انقلابی نعرہ تھا جو ملک میں سویلین بالادستی اور جمہوریت کی خواہش رکھنے والوں کے لہو کو گرماتا تھا، تو دوسری طرف ’خدمت کو ووٹ دو‘ کا ہومیوپیتھک نعرہ تھا کہ جس میں خلائی مخلوق کو رام کرنے کی حسرت ہلکورے لیتی سنائی دیتی تھی۔ ایک طرف مسلم لیگ کا ’سب کے پاؤں لاگوں‘ والا ڈی این اے تھا، اور دوسری طرف اس کا نوجوان ووٹر جو اس روایت سے بغاوت کرنے پر تلا تھا اور جسے نواز شریف اور مریم نواز کی صورت میں اپنے خوابوں کی تعبیر دکھائی دیتی تھی۔
نواز شریف کو نیب عدالت سے سزا ہوئی تو انہوں نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ 13 جولائی کو وہ لاہور ایئر پورٹ پہنچے تو یہ واضح تھا کہ مسلم لیگ کا ڈی این اے غالب آ چکا ہے۔ نواز شریف لندن سے دبئی، دبئی سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد جا پہنچے لیکن شہباز شریف بھاٹی سے نکل کر ایئرپورٹ تک مسلم لیگ کا قافلہ نہ پہنچا سکے۔ یہ شہباز شریف اکیلے کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے میں سب سے اونچی آواز ان کی تھی جو کبھی فوجی آمریتوں کے خلاف کلمہ حق کہنے کا ہما سر پر سجائے خود کو جمہور کی آواز کہتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو جنرل مشرف کو اسمبلی میں یوں للکارا کرتے تھے کہ کئی سال بعد بھی ٹی وی پر ان کی تقاریر دکھا کر ان کو غدار ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو جلسے میں کھڑے ہو کر کہتے تھے کنٹونمنٹ کو آزاد کروائیں گے۔
13 جولائی کو نواز شریف کے ساتھ اگر کوئی کھڑا تھا تو وہ صرف ان کی بیٹی مریم نواز شریف تھیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جن لوگوں نے اس روز ایئر پورٹ نہ پہنچ کر اپنی قومی اسمبلی کی نشستیں پکی کی تھیں، جیلوں کی ہوا تو انہوں نے پھر بھی خوب کھائی۔ کوئی 16 مہینے تو کوئی چھ مہینے، جیل یاترا قریب قریب سب نے ہی کی۔ لیکن اس دوران جس ایک شخص کے بارے میں مسلم لیگیوں کو یہ گمان تھا کہ وہ ایک پکا جمہوری لیڈر ہے، وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔ یہاں تک کہ جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا موقع آیا تو ان کے بارے میں خوب خبریں گرم رہیں کہ انہوں نے مسلم لیگ نواز کے واٹس ایپ گروپ میں خواجہ آصف کو خوب سخت سست سنائیں۔ جماعت کے اندر مشاورت نہ کیے جانے پر خواجہ آصف پر کڑی تنقید کی کہ اگر یہ فیصلہ بھی کرنا تھا تو اتنی عجلت دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ دے دیتے ووٹ لیکن کم از کم اتنا بھرم تو رکھتے کہ لوگوں کو ہی دکھایا جا سکے کہ ہم نے پارٹی کے اندر مشاورت کی ہے۔
یہ سب تو ٹی وی پر ذرائع کے حوالے سے خبریں تھیں جن کی شاہد خاقان عباسی نے کبھی تردید نہیں کی۔ ہو سکتا ہے ان میں کچھ مبالغہ ہو لیکن خواجہ آصف تو صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ لندن گئے تھے، نواز شریف صاحب نے خود ان سے کہا کہ اس موضوع پر کوئی سیاست نہ کی جائے اور جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون کو قانونی کور فراہم کرنے کے لئے ووٹ دینے میں کوئی تامل نہ برتا جائے۔ یہ بات انہوں نے ARY کے پروگرام آف دی ریکارڈ ود کاشف عباسی میں بھی کہی۔ لہٰذا کم از کم یہ تو طے ہے کہ اس معاملے میں فیصلہ اوپر سے آیا تھا، پارٹی میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ اب شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ یہ جماعت کا فیصلہ تھا کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے تو سینیٹر پرویز رشید کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دیتے، اور اگر انہیں نہیں دینا تھا تو پہلے پارٹی سے استعفا دیتے اور پھر کسی ایسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اس کی مخالفت کرتے جس کی پالیسی سے وہ ہم آہنگی رکھتے ہوں۔
ان سے سوال ہوا کہ جناب مسلم لیگ نواز نے ان کو شوکاز نوٹس کیوں جاری نہ کیا، تو سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر یوں شو کاز نوٹس جاری ہونے لگیں تو پارٹیاں روزانہ کے حساب سے شو کاز نوٹس جاری کیا کریں گی۔ لیکن اصول کی بات یہ ہے کہ اگر مشاورت کے بعد ایک فیصلہ ہو گیا ہے تو اس سے ہٹ کر ووٹ دینے سے پہلے اخلاقی طور پر پرویز رشید کو پارٹی سے استعفا دینا چاہیے تھا۔ لیکن مشاورت تو ہوئی ہی نہیں۔
میڈیا رپورٹس پر اعتبار کیا جائے تو پارٹی میں مشاورت کے فقدان ہی کے باعث شاہد خاقان عباسی تو جیل سے ناراضگی کا اظہار کرتے رہے تھے۔ اور اگر میڈیا رپورٹس کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو خواجہ آصف آن ریکارڈ ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے ان کو لندن بلا کر یہ فیصلہ سنایا تھا۔ لہٰذا شاہد خاقان عباسی جس بھی مار پر ہیں، کم از کم اپنے اور اپنے دیگر رفقا کے پرانے بیانات سے یوں ٹی وی پر بیٹھ کر یوٹرن نہ لیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، عمران خان کے پرانے کلپس نکالے جا سکتے ہیں تو شاہد خاقان عباسی کے بھی موجود ہیں۔ اور مسلم لیگ کی دیگر قیادت کے بھی۔
دوسری بات انہوں نے یہ کی ہے کہ خلائی مخلوق مسلم لیگ کے بیانیے کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ موجود ہے، وہ مداخلت بھی کرتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے لیکن بات اس سے کچھ زیادہ گہری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور خلائی مخلوق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو کیوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو قابلِ قبول ہے، لیکن خلائی مخلوق نہیں؟ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، ’خلائی مخلوق‘ کے لفظ نے گھاؤ بہت گہرا لگا دیا تھا۔ یہ گھاؤ اتنا گہرا تھا کہ آج بھی اس کو سہلا کر اس کی جلن میں کچھ کمی کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بیچارے شاہد خاقان عباسی بھی شاید تھک چکے ہیں۔ آخر کب تک نیب کی تلوار سر پر لٹکتی برداشت کریں؟ کبھی تو ان کا صبر بھی جواب دیتا ہی۔ سو دے گیا۔ لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ چاہے نام اسے اسٹیبلشمنٹ کا دیا جائے، مقتدر قوتیں کہا جائے، بڑے بھائی کہا جائے، ٹینکوں والی سرکار کہا جائے، یا خلائی مخلوق، بات تو طاقت کے اصل مرکز کی ہی ہو رہی ہے۔
بقول شیکسپیئر، نام میں کیا رکھا ہے؟ گذارش محض اتنی ہے کہ شاہد خاقان عباسی پرویز رشید کو شوکاز نوٹس جاری کروائیں، یا ان سے براہ راست استعفے کا مطالبہ کریں، اسے جماعت کے اندر کسی خیالی مشاورت کے ساتھ نتھی نہ کریں۔ جماعت میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ نہ ہی اس معاملے پر، نہ ہی کسی اور معاملے پر۔ جس جماعت نے آپ کو وزیر اعظم بنایا تھا، یہ دو بھائیوں کی جماعت ہے، وہ جو فیصلہ کرتے ہیں، وہ آپ سب کو ماننا پڑتا ہے۔ پرویز رشید نے وہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا۔ اس فیصلے کو جماعت کے اندر ہوئی مشاورت کا نام دے کر معتبر بنانے کی کوشش نہ کیجئے۔ رہی بات پرویز رشید کی، تو وہ تو ڈان لیکس کے سب سے پہلے شکار تھے۔ شاہد خاقان عباسی کا حق نہیں بنتا کہ پرویز رشید کی جماعت سے وابستگی پر انگلی اٹھائیں۔
42635/