باخبر ذرائع نے بتایا کہ 2 اگست کی شام کو پیٹرول کا مجموعی ذخیرہ 8 روز کے لیے ملک کی اوسط کھپت سے کم تھا۔
وزیر اعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی اور پیٹرولیم ڈویژن کے دیگر اعلیٰ عہدیداران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا اور بہت سی کمپنیوں کو جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی اس رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ 4 سے 5 دن کا ذخیرہ رکھنے کے لیے سندھ بالخصوص کراچی سے پیٹرول دوسرے صوبوں کو منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، کیوں کہ اس کارگو کی جگہ خام تیل کے کارگو نے لینی ہے جسے 5 روز تک روک کر رکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 30 جولائی سے 2 اگست تک 50 ہزار ٹن سے زیادہ پیٹرول سندھ سے ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا تاکہ جہاں 2 سے 3 روز کا ذخیرہ رہ گیا ہے وہاں قلت نہ ہوسکے۔
اس طرح سندھ میں پیٹرول کے ذخیرے کی پوزیشن پیر کے روز 30 دن کے کور سے کم ہو کر 22 دن کے کور پر آگئی۔
پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پیٹرول کا ذخیرہ کم ہونے کی وجہ سے وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن نے وزارت بحری امور سے پیٹرول کے کارگو کی برتھنگ کو ترجیح دینے درخواست کی تھی۔
پیٹرولیم ڈویژن نے کے پی ٹی میں مختلف آنے والے کارگوز کے لیے آئل پیئرز بھی مختص کیے۔
اس عرصے کے دوران 5 جہازوں کے ذریعے آنے والے 2 لاکھ 10 ہزار ٹن پیٹرول کو 2 ٹرمینلز پر برتھ کیا جانا تھا جس میں 2 پاکستان اسٹیٹ آئل اور دیگر ٹوٹل پارکو، گو اور شیل پاکستان کے تھے۔
وزارت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومتی فیصلے کے مطابق پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے لائے گئے کسی بھی جہاز کو دیگر تمام جہازوں پر فوقیت دی جائے گی۔
پیٹرولیم ڈویژن کے عہدیداران نے بھی اس دعوے کی تائید کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ فوقیت پی این ایس سی کے اپنے جہازوں کو دینی ہے، اس کے ہائر کیے گئے جہازوں کو نہیں۔
دوسرا ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول کارگو کو فوقیت دینا ملک کے دیگر حصوں میں کم ذخیرے کی وجہ سے خصوصی معاملہ تھا، کیوں کہ متعلقہ ریفائنریز نے صرف ایک خام جہاز کو ختم کیا تھا جو چار سے پانچ دن کے لیے کافی ہوتا۔