سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے دوران قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں مزید ترمیم کا بل 'دوسرا ترمیمی بل 2022' پیش کیا گیا۔
یہ بل وزیر مملکت برائے قانون و انصاف سینیٹر شہادت اعوان نے ایوان بالا میں پیش کیا۔ بل سینیٹ میں پیش کیے جانے کے بعد اس کی ایوان سے شق وار منظوری لی گئی۔
سینیٹ سے منظور کیے گئے نیب (دوسرا ترمیمی) بل 2022 کے مسودے کے مطابق نیب 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا۔
منظور کیے گئے بل کے مسودے کے مطابق احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر مملکت کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے، جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی جا سکے گی۔
نیب ترمیمی بل پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے شدید احتجاج کیا اور سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ثابت ہوا کہ اس ملک میں چھوٹے چور جیل جائینگے اور بڑے چور ایوانوں میں آئیں گے۔
بل کے تحت ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہوگا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ نیب تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ریفرنس دائر کرے گا۔ پلی بارگین کے تحت رقم واپسی میں ناکامی کی صورت میں پلی بارگین کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
نیب ترمیمی بل کے مطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئر مین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کارروائی منسوخ کر دے گا جو بلاجواز ہو۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اگر چیئرمین نیب کو لگے کہ ریفرنس بلا جواز ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے نیب عدالت کے جج کا تین سال کے لیے تقرر کرے گی۔ نیب عدالت کا جج ایسا شخص تعینات نہیں ہو سکتا جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نہ ہو۔
نیب جج کو مدت مکمل ہونے سے قبل نہیں ہٹایا جا سکتا ہے، نہ اس کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ نیب جج کو صرف متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے ساتھ ہٹایا جا سکتا ہے۔ ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہو گا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔