اے آر وائی نیوز کے پروگرام ''الیونتھ آور'' میں اپنی قانونی رائے پیش کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو فیصلہ جاری ہوا اس میں ممنوعہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے کوئی تصدیق شدہ فگر نہیں ہے۔ اس طریقے سے نہ تو کسی پارٹی اور نہ ہی اس کی لیڈرشپ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا اطلاق ہوا تو آئندہ ہر سیاسی جماعت پر ہوگا۔ الیکشن کمیشن ایسے دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہے تو اس کی وجہ سے ہر جماعت کیلئے مسائل ہونگے۔ کسی پارٹی کیخلاف آئین کے مطابق ہی ریفرنس بھیجا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت ریاست کیخلاف اقدامات اٹھا رہی ہے تو ہی ریفرنس کو بھیجا جا سکتا ہے۔ کوئی جماعت ریاست کے خاتمے کی کوشش کرتی ہے، تب ہی ریفرنس بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کا کوئی نمائندہ یا بینکر الیکشن کمیشن کے روبرو پیش نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کے کیس میں کوئی جرح بھی ریکارڈ پر نہیں آئی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کسی گواہ یا جرح تک کا ذکر بھی نہیں ہے۔
چودھری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنی حدود میں ہے، جس کے تحت وہ کام کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو صادق اور امین کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرتی پھرے۔ عمران خان کیخلاف براہ راست صادق امین کا کیس سپریم کورٹ میں دائر نہیں ہو سکتا۔ حکومت جعل سازی کے کے الزام میں سیشن کورٹ جا سکتی ہے، سپریم کورٹ میں نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کا مطالبہ بھی غلط کیا جا رہا ہے۔ فل کورٹ بنائی جاتی ہے تو کیس تاخیر کا شکار ہوگا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے تو ہر کوئی بات کرنا چاہے گا۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ سیاسی جماعتوں کو مارنے کا زہر ہے۔ فیصلے کا اطلاق ہوا تو ہر سیاسی جماعت پر ہوگا۔