میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کے لئے نیوٹرلز کے دل میں کوئی سافٹ کارنر موجود ہے اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ مذاکرات کیلئے عمران خان اب اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ نیوٹرلز کیساتھ کسی قسم کی بارگین کرسکیں۔ وہ وقت عمران خان نے اپنی طاقت کے زعم پر ضائع کر دیا ہے۔
جس وقت وہ یہ خلا پر کر سکتے تھے انہوں نے ضد جاری رکھی اور سمجھا کہ میں سب کو بہا کر لے جائوں گا اور ان کو میری شرائط پر آنا پڑے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان سے مس کیلکولیشن ہو گئی ہے۔
عمران خان نے بظاہر تو پنجاب کی حکومت حاصل کر لی اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیا ہے لیکن یہ عہدہ پی ٹی آئی کا تو نہیں ہے۔ کابینہ اس لئے نہیں بن پائی کیونکہ ابھی تک دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں پر اتفاق ہی نہیں ہو سکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پنجاب میں جو نکاح ہوا ہے وہ زیادہ نہیں چلے گا۔
نیوٹرل بتا رہے ہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے تراشے بت توڑنا بھی جانتے ہیں۔ یہ جو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ ہم نے دیا تھا، ہم اسے واپس لینا بھی جانتے ہیں۔ اگر ہم جھوٹا سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ جمائما گولڈ سمتھ کو پرانی رسیدیں مل گئی ہیں تو اسے ختم کرنا بھی کرنا جانتے ہیں۔ عمران خان کو پتہ ہے کہ جن لوگوں نے انھیں صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دیا وہ اب واپس لینے پر آ گئے ہیں۔
‘عمران خان کی نااہلی کا معاملہ منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے’
سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نااہلی کا معاملہ منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گاڑی کو اس کی منزل پر پہنچانے کیلئے موڑ دیا گیا ہے۔ لیکن رستے میں سپریم کورٹ ایک بہت بڑا جمپ ہے۔
اعزاز سید نے اپنا یہ سیاسی تجزیہ نیا دور ٹی وی کہ پروگرام ”خبر سے آگے” میں بات کرتے ہوئے دیا۔ پروگرام کے میزبان رضا رومی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان کی نااہلی کے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان پر سیریس قسم کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ نیوٹرلز کوئی زیادہ ایکٹو نظر نہیں آئے۔ کیونکہ ہمارے تمام معاملات کا دارومدار ان کے ہی مرہون منت ہو چکا ہے۔ تو جب نیوٹرلز نکل جاتے ہیں تو لوگ آٹو پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہماری معزز عدالت اس وقت آٹو پر چل رہی ہے۔ روٹین کے مطابق چلتے رہیں تو کوئی بات نہیں، لیکن جب کسی کی سائیڈ لی جاتی ہے تو اس پر اعتراضات آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں جو کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی تقسیم آئی ہے، وہ ہماری عدلیہ کے اندر بھی موجود ہے۔ اور سب کو واضح طور پر نظر بھی آتی ہے۔
پروگرام کے دوران اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ عمران کی نااہلی کے معاملے پر میں یہ کہوں گا کہ اگر نیوٹرلز، نیوٹرل رہے اور سپریم کورٹ یونہی آٹو پر چلتی رہی تو اس کے نتائج میرے اور آپ کے سامنے ہونگے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان نے اسٹیبشلمنٹ سے بات کرنے کیلئے اپنے بیک ڈور چینلز کھولے ہیں۔ پرویز خٹک صاحب مستقل بنیادوں پر دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ اس دوران رابطے بھی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے بڑا معاملہ یہ ہے کہ عمران خان آئندہ الیکشن لڑ پائیں گے یا نہیں اور نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہوگی یا نہیں۔ جبکہ چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے یا نہیں۔ اور کیا سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو آرام کیساتھ چلنے دے گی یا نہیں۔ اس کے علاوہ بڑا ایشو یہ ہے کہ پنجاب اور مرکز میں ورکنگ ری لیشن قائم بھی ہو پائے گا یا نہیں۔