اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت ہونے کا سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس سے متعلق دائر اپیلوں پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر علی عدالت میں پیش ہوئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز بھی موجود تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس سے متعلق دائر 8 اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا ہے جس میں توشہ خانہ فوجداری کارروائی کا کیس قابل سماعت قرار دینے کا سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت نے توشہ خانہ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی جبکہ حق دفاع بحال کرنے کی درخواست پر آئندہ ہفتے کیلئے نوٹس جاری کردیئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مختصر فیصلہ سنایا کہ سیشن کورٹ فریقین کو دوبارہ سن کر کیس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور ہی کیس کی سماعت کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ درخواست میں اٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب دے، عدالت نے جج ہمایوں دلاور کے فیس بک اکاؤنٹ سے متعلق ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ کل حتمی دلائل کیلئے کیس مقرر ہے. درخواست گزار یہ یقینی بنائے عدالت جب بھی حتمی دلائل طلب کرے وہ دلائل دیں۔
فیصلے کے مطابق جج ہمایوں دلاور کا فیس بک اکاؤنٹ مستند نہیں ہے. جج کے فیس بک اکاؤنٹ سے متعلق ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دے دیا. معاملے میں ملوث افراد کا تعین کرکے دو ہفتوں میں رپورٹ جمع کروانے کی بھی ہدایت کردی گئی۔
Toshakhana case: IHC declar... by Wasif Shakil
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ میں اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے کے لیے فہرست دی لیکن ٹرائل کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے کہا کہ درخواست مسترد کر رہے ہیں۔کل حتمی دلائل دیں۔ یہ بھی کہا کہ حتمی دلائل کے بعد اسی دن فیصلہ بھی محفوظ کر لیا جائے گا۔ نجانے کس بات کی جلدی ہے کہ روز انہ کی بنیاد پر سماعت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی اس متعلق درخواستیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ جب تک معاملہ ہائی کورٹ میں ہو کوئی فیصلہ کیسے سنایا جاسکتا ہے؟ اس سے جج کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ابھی جج سے متعلق ایف آئی اے کی ایک رپورٹ بھی آئی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے جج کے فیس بک اکاؤنٹ سے وہ پوسٹ نہیں ہوئی۔ یکطرفہ رپورٹ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں ابھی صرف ایک بات آپ کے علم میں لایا ہوں۔ آپ کی ایک درخواست ٹرائل کورٹ جج کے تعصب پر ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ روز انہ کی بنیاد پر سماعت سے جج کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس عدالت کے سامنے اب 8 درخواستیں زیرِ سماعت ہیں، جیسے آرڈرز ٹرائل کورٹ سے آرہے ہیں یہ جانبداری ظاہر کرتے ہیں، ہائی کورٹ سے استدعا ہے کہ ٹرائل کورٹ کو مزید کارروائی آگے بڑھانے سے روکے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خامیاں ختم ہوسکیں۔
واضح رہے کہ 2 اگست کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے مبینہ فیس بک پوسٹوں کے معاملے میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کو کلئیر کر دیا۔
ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج کی مبینہ فیس بک پوسٹس کے حوالے سے رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دی۔
رپورٹ کے مطابق جج سے منسوب فیس بک پوسٹوں کے سکرین شاٹس کا یو آر ایل موجود نہیں۔ اکاؤنٹ کا ٹیکنیکل جائزہ لیا گیا ہے لیکن سکرین شاٹس کی کوئی پوسٹ موجود نہیں۔
ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کو کلئیر کر دیا جس کے بعد اس اعتراض کی بنیاد پر کیس جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
28 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے جج کی ’متنازع‘ فیس بک پوسٹس سے متعلق معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے حوالے کردیا تھا۔
18 جولائی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت کرنے والے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور پرعدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے جج کی مبینہ فیس بک پوسٹیں عدالت میں دکھائی تھیں۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں نے جب ان پوسٹس کو دیکھا تو بہت دکھ ہوا۔
اس پر ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک اکاؤنٹ میرا ہی ہے لیکن یہ پوسٹیں میری نہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ آپ اس کی فرانزک کراکے یہ اعتراض کرتے۔ اس کو آپ کسی ایسے فورم پر کیوں نہیں لے کے جاتے کہ اس کی تحقیقات ہوں۔
جج ہمایوں دلاور کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی جیسے ٹرالنگ کرتی ویسے ہی گوہرعلی خان نے بھی کی۔
بیرسٹر گوہر نے تصویریں بھی عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ ساری چیزیں اس فیس بک اکاؤنٹ پر دیکھیں ہیں بعد میں وہ لاک ہو گیا۔ آپ نے تسلیم کر لیا فیس بک آپ کا ہے اب فیس بک بند ہو چکا ہے۔
بعد ازاں عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا۔ درخواست میں ان کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔