بعض بے ضابطگیوں کے باعث پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری فضول مشق ثابت ہوئی

آبادی کی درست اور جامع گنتی نا صرف سیاسی حد بندی کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ اور سماجی طور پر حساس مسئلہ بھی ہے۔ مضبوط ڈیٹا مؤثر منصوبہ بندی کا باعث بنتا ہے۔ اس کی کمی معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے پسماندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ حکام کو مردم شماری کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہئیے اور اسے ویسی ترجیح دینی چاہئیے جس کی یہ متقاضی ہے۔

07:11 PM, 4 Aug, 2023

محمد توحید

مردم شماری کا بنیادی مقصد ایک مخصوص وقت کے دوران آبادی کی درستگی سے گنتی کرنا ہے۔ مردم شماری کی مشق مناسب وسائل کی تقسیم، انتخابی حلقوں کی حد بندی، انتخابی نمائندگی، معیار زندگی کی تشخیص، عوامی خدمات کی فراہمی، اور پالیسی کی منصوبہ بندی کے لیے اہم ہے۔

مردم شماری کے اندر شامل بڑے سوالات جیسے کہ 'ہم کون ہیں؟' اور 'ہم کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟' بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ جدید طرز حکمرانی کے لیے انسانی سرمایے کی صلاحیت کی 'مقدار' درست کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے 'معیار' کی بھی ضرورت ہے۔ لہٰذا ثبوت پر مبنی فیصلہ سازی کے لیے ان سوالات کے جوابات بہت ضروری ہیں۔

زیادہ تر ممالک روایتی مردم شماری کے ذریعے آبادی اور رہائش کے اعداد و شمار تیار کرتے ہیں جس میں پورے ملک کی منظر کشی، ہر گھر اور ہر شخص تک پہنچنا اور ایک مقررہ مدت کے اندر تمام افراد سے متعلق معلومات جمع کرنا شامل ہے۔ یہ مشق عام طور پر حکومت یا ایک نامزد شماریاتی ایجنسی کی طرف سے کی جاتی ہے تاکہ آبادی کے سائز، تقسیم اور خصوصیات کے بارے میں درست اور قابل اعتماد معلومات حاصل کی جا سکیں۔

جنوبی ایشیا کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری

رواں سال پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS)نے پورے پاکستان کی سطح پر جنوبی ایشیا کی تاریخ میں پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری مکمل کی ہے۔ ساتویں مردم شماری میں ملک کی مجموعی آبادی (گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت) 26 کروڑ (260 ملین) قرار پائی۔

پہلے مرحلے میں خود شماری کا عمل 20 فروری 2023 کو شروع ہوا اور فیلڈ آپریشنز کا آغاز یکم مارچ 2023 سے کیا گیا تھا جو کہ 4 اپریل 2023 تک مکمل ہون اتھا مگر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد مردم شماری کی آخری تاریخ میں کئی بار توسیع کی گئی اور 24 مئی 2023 کو ملک بھر میں شمار کنندگان اور دیگر حکام کی ٹیبلٹ اور ڈیش بورڈ تک رسائی وفاقی ادارہ شماریات نے بند کر دی جبکہ اس سے قبل بتدریج مجموعی نتائج سامنے آتے رہے لیکن ابھی تک تفصیلی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے۔ اسی دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف بیانیے سامنے آئے اور قریباً تمام نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا۔

اقوام متحدہ کی رہنما دستاویزات کے مطابق ایک جوابدہ اور شفاف مردم شماری کے لیے گنتی کی مدت کا وقت اور طوالت بہت اہم ہے۔ تاہم 'ماہ رمضان' کے دوران گنتی کے عمل کو انجام دینے سے شمار کنندگان اور جواب دہندگان دونوں کے لیے چیلنجز پیدا ہوئے۔

مردم شماری مختلف صوبوں اور شہروں میں رہنے والے خاندانوں اور افراد کے بارے میں اہم ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔ قومی مالیاتی کمیشن (NFC) بھی آبادی کے سائز کی بنیاد پر مالی وسائل کی تقسیم کا تعین کرنے کے لیے ان ہی اعداد و شمار پر انحصار کرتا ہے۔ اس سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ زیادہ آبادی والے صوبوں اور علاقوں کو وسائل کا منصفانہ حصہ ملے، جس سے وسائل کو مختص کرنے میں مساوات کو فروغ ملے۔

مزید یہ کہ مردم شماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تعداد کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور آبادی کے سائز میں ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر تنظیم نو کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ زیادہ آبادی والے خطوں کو اسمبلیوں میں مناسب نمائندگی حاصل ہو اورجمہوری عمل میں انصاف کو فروغ ملے۔

پاکستان میں مردم شماری کی قانونی بنیادیں

پاکستان میں مردم شماری کے انعقاد کی قانونی بنیاد 1959 کے مردم شماری آرڈیننس، پھر 1991 کے مردم شماری (ترمیمی) ایکٹ اور موجودہ وقت کے لئے 2011 کے جنرل شماریات (تنظیم نو) ایکٹ کے ذریعے فراہم کی گئی ہے۔

مردم شماری آرڈیننس پاکستان میں مردم شماری کے لیے بنیادی قانونی ڈھانچہ تھا جب تک کہ اس میں 1991 میں ترمیم نہیں کی گئی۔ آرڈیننس میں مردم شماری کی حد اور اہداف، مردم شماری کو انجام دینے کے ذمہ داروں کے فرائض اور تعمیل میں ناکامی یا غلط معلومات فراہم کرنے کے نتائج کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ مردم شماری (ترمیمی) ایکٹ نے ملک میں مردم شماری کی سرگرمیوں کے لیے قانونی فریم ورک کو اپ ڈیٹ کیا۔ اس نے مردم شماری کے سوال نامے میں سوالات شامل کیے جن میں صحت، تعلیم اور روزگار جیسے موضوعات شامل ہیں جبکہ ڈیٹا کی درستگی کو یقینی بنانے اور کوالٹی کنٹرول کے اقدامات کے ذریعے اس کی رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔

2011 کے ایکٹ نے PBS کو بنیادی شماریاتی ایجنسی کے طور پر قائم کیا جو ملک میں سرکاری اعداد و شمار جمع کرنے، تجزیہ کرنے اور پھیلانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ ایکٹ مختلف شماریاتی سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے، بشمول مردم شماری، سروے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی دیگر کوششیں۔ یہ وفاقی حکومت کو مردم شماری کی تاریخوں کا فیصلہ کرنے، سوالنامے تیار کرنے، ذاتی خصوصیات اور رہائش کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور مردم شماری کے اعداد و شمار کو پھیلانے کا بھی اختیار دیتا ہے۔ مزید براں، یہ ایکٹ رازداری کو یقینی بناتا ہے اور افراد کی ذاتی معلومات کی حفاظت کرتا ہے۔

ملک میں روایتی طور پر ہر دہائی میں مردم شماری کرانی ہوتی تھی مگر افسوس ایسا تواتر سے نہیں ہو سکا اور آخری مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی۔ تاہم شماریات ایکٹ میں 2011 کی ترمیم نے حکومت کو اجازت دی کہ جب بھی ضروری ہو مردم شماری کرائی جائے۔

مردم شماری کا طریقہ کار

مردم شماری کے دو طریقے ہوتے ہیں؛ ڈی جیور اور ڈی فیکٹو۔

ڈی جیور طریقہ کار میں لوگوں کی ان کی معمول کی رہائش گاہ پر گنتی شامل ہوتی ہے، جبکہ ڈی فیکٹو طریقے میں ان لوگوں کی گنتی شامل ہوتی ہے جہاں وہ مردم شماری کے دنوں میں پائے جاتے ہیں۔ 1998 کی مردم شماری نے دونوں طریقوں کو بیک وقت لاگو کیا، لیکن وقت کے ساتھ موازنہ کے لیے ڈی جیور کی بنیاد پر اعداد و شمار کا جدول بنایا گیا اور شائع کیا گیا۔

2023 کی مردم شماری کے لیے صرف ڈی جیور طریقہ استعمال کیا گیا۔ محکمہ شماریات نے واضح کیا تھا کہ وہ افراد جو کراچی میں چھ ماہ سے مقیم ہیں یا اگلے چھ ماہ تک قیام کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں شہر کراچی کے رہائشیوں میں شمار کیا جائے گا۔ گھر کے وہ افراد جو عارضی طور پر چھ ماہ سے کم عرصے سے دور ہیں ان کو ان کی معمول کی رہائش گاہ پر شمار کیا جائے گا جبکہ گھر کے سابقہ ممبران جو دوسری جگہ پر مقیم ہیں ان کا شمار ان کی موجودہ رہائش گاہ کے تحت کیا جائے گا۔

تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ گنتی کے لیے استعمال کیے جانے والے سوالنامے کسی فرد کے کسی خاص مقام پر قیام کی لمبائی کا تعین کرنے کے لیے اندرونی نقل مکانی کو کیسے حل کریں گے۔ جبکہ آبادی کی تعداد کا درست تعین کرنے کے لیے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ شمار کنندہ جواب دہندہ کے قیام کی اصل مدت یا شہر میں رہنے کے مستقبل کا تعین کیسے کرتا ہے؟

کراچی جیسے شہر کے لیے جہاں مہاجرین اور موسمی تارکین وطن کی ایک خاصی آبادی کام اور تعلیم کے لیے شہر منتقل ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کے پاس اپنی رہائش کی سرکاری دستاویزات نہیں ہیں، ڈی فیکٹو طریقہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ آبادی کی زیادہ درست نمائندگی فراہم کرے گا جو مردم شماری کے وقت شہر میں جسمانی طور پر موجود ہیں اور ساتھ ہی سال کا ایک اہم حصہ اسی شہر میں گزارتے ہیں۔

2017 کی مردم شماری سے کیا سیکھنا ضروری تھا؟

2017 کی مردم شماری کو کئی غلطیوں کی وجہ سے متنازعہ سمجھا گیا۔ ایک سب سے بڑا جھگڑا یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی مرکز کراچی کی آبادی میں اب بھی شدید اختلاف اور تنازع ہے کہ اصل میں اس شہر کی آبادی کتنی ہے۔

2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار اور تنائج سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی کی دیہی اور شہری آبادی کا تخمینہ تقریباً 1 کروڑ 60 لاکھ تھا۔ ماہرین اور سیاسی جماعتوں نے ان اعداد و شمار کا مقابلہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس مردم شماری میں شہر کی آبادی کو شدید طور پر کم دکھایا گیا تھا۔ بہت سے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ اس وقت بھی اصل تعداد 2 کروڑسے زیادہ تھی۔

جبکہ اس سے پہلے 1998 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 93 لاکھ بتائی گئی تھی۔ 2017 کی مردم شماری کے نتائج کا 1998 کے نتائج سے موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ 19 سالوں میں لاہور شہر کی آبادی میں 113 فیصد، اسلام آباد کی آبادی میں 90 فیصد اور پشاور کی آبادی میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم کراچی شہر کی آبادی میں صرف 63 فیصد اضافہ ہوا جس پر یقین کرنا مشکل ہے اگر دوسرے صوبوں اور سندھ کے دیہی علاقوں سے نقل مکانی کے پیمانے پر غور کرتے ہوئے دیکھا جائے۔

2017 کی مردم شماری کے دوران ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کی لیکن آئندہ 2018 کے انتخابات کی وجہ سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ حیرت انگیز طور پر کراچی کے کچھ بلاکس میں مردم شماری میں انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سے کم آبادی تھی جو کہ کسی صورت ممکن ہی نہیں۔ اس تفاوت کو شمار کرنے کے عمل میں غلطی سے آگے بیان کرنا ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ مردم شماری اور انتخابات کے درمیان وقت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

ایک اور غلطی جس کی نشاندہی بہت سے لوگوں نے کی ہے کراچی کے بہت سے باشندوں کو ان کے مستقل پتے کی بنیاد پر اپنے آبائی شہروں (پنجاب سے لے کر خیبر پختونخوا تک) میں رہتے ہوئے درج کیا گیا ہے حالانکہ وہ کراچی میں رہتے ہیں اور اس کے وسائل استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ کراچی کی آبادی کو کم رپورٹ کیا گیا کیونکہ اس کی وجہ سے اسمبلی کی نشستوں اور وسائل کی تقسیم میں دیگر علاقوں کو زیادہ نمائندگی مل گئی۔ موجودہ مردم شماری میں محکمہ شماریات کو امید تھی کہ لوگ کہاں رہتے ہیں اس کی گنتی اور چھ ماہ کا وقت مقرر کرنے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔

2023 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی

حالیہ مردم شماری میں کراچی کی گنتی کی درستگی ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اگر درست طریقے سے شمار کیا جائے تو شہر کی آبادی 30 ملین (3 کروڑ) سے زیادہ ہو گی۔ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کے لیے کراچی منتقل ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد مستقل طور پر یہیں رہائش پزیر ہو جاتی ہے اور کافی بڑی تعداد ایسی ہے جو چھ سے آٹھ ماہ ہر سال اس شہر میں گزارتی ہے۔ ان میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے آنے والے لوگ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بنگالی، برمی روہنگیا اور سرائیکی کمیونٹیز کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین بھی اسی شہر میں آباد ہیں جن میں سے اکثر کے پاس رہائشی دستاویزات موجود نہیں اور اس طرح انہیں شمار نہیں کیا جاتا۔ 2010 کے سیلاب کے بعد سے ایک دہائی کے دوران کراچی میں قریباً 12 سال سے رہنے والے آفت سے متاثرہ خاندانوں کو اب بھی ان کے آبائی علاقوں میں رہائشی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے رہائشی پتے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

19 سالوں کے دوران شہر کی آبادی میں 63 فیصد اضافہ جو 2017 کی مردم شماری میں ریکارڈ کیا گیا، اس طرح اس میں ہونے والی حقیقی ترقی کا حساب دینے میں ناکام رہا۔ بنگالی اور پختون کمیونٹیز سمیت بہت سے رہائشیوں کو ان کے آبائی شہروں میں یا تو نظر انداز کیا گیا ہے یا غلط طریقے سے ریکارڈ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی کی نمائندگی کم ہے۔

2023 کی مردم شماری میں کراچی کو 15,984 بلاکس، 1,290 سرکلز اور 365 چارجز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ محکمہ شماریات کراچی کے کوآرڈینیٹر کے مطابق 2 مارچ 2023 تک کراچی کی گنتی کی گئی آبادی 8.6 ملین بتائی گئی تھی اور مردم شماری کے پہلے مرحلے کے دوران 2.924 ملین گھرانوں کی گنتی کی گئی تھی۔ یہ شہر کی گھریلو تعداد میں 7 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا تھا۔ 3 اپریل کو محکمہ شماریات نے اپنے ڈیٹا بیس میں 2.94 ملین گھرانوں کی اطلاع دی جس میں 2.42 ملین گھرانوں کی گنتی اور 12.33 ملین کی آبادی تھی۔ 10 اپریل 2023 کو محکمہ شماریات نے کراچی میں چار منزلوں سے زائد کی تقریباً 30,000 عمارتوں کی دوبارہ گنتی کی تجویز دی کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ عمارات گنتی سے رہ گئیں اور ان عمارتوں کی فہرست سندھ حکومت کو بھیجی جن کے افسران شہر میں مردم شماری کر رہے تھے۔

اس طرح کے کئی معاملات سامنے آئے جن سے مردم شماری کے معیار پر برا اثر پڑا۔ ایک جی آئی ایس تجزیہ کار کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر محکمہ شماریات نے کراچی کے تمام گھرانوں کو درست طریقے سے 'جیو ٹیگ' کیا تھا تو وہ ایک کلک کے ساتھ ڈیٹا میں موجود خلا کو چیک کر سکتے تھے۔ اسی طرح 4 اپریل 2023 کو جس دن مردم شماری کا باضابطہ طور پر اختتام ہونا تھا، محکمہ شماریات نے اعلان کر دیا تھا کہ کراچی میں بچ جانے والے بلاکس میں آبادی کی گنتی جاری رہے گی۔ تاہم انہوں نے بچ جانے والے بلاکس کی اصل تعداد کا ذکر نہیں کیا تھا۔

21 اپریل تک کراچی میں آبادی کی گنتی 16.5 ملین تک پہنچ گئی تھی، جبکہ ماہرین اندازہ لگا رہے تھے کہ کراچی کی آبادی کی زیادہ سے زیادہ تعداد محکمہ شماریات کے گھریلو ڈیٹا کی بنیاد پر 17.5 ملین کے قریب پہنچ جائے گی۔ جبکہ وہ اعداد و شمار 2017 سے آبادی میں اضافے کی شرح صرف 2.5 فیصد کو ظاہر کرتے تھے۔ سندھ کی دیگر ڈویژنوں کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہوئے یہ قدر غیر معمولی طور پر کم تھی۔ سندھ میں کسی بھی ڈویژن کی آبادی میں 12 فیصد سے کم اضافہ نہیں ہوا۔ لاڑکانہ میں سب سے زیادہ اضافہ (25 فیصد) ریکارڈ کیا گیا تھا۔ نقل مکانی کے پہلو سے ہٹ کر آبادی کی قدرتی شرح نمو کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ان اعداد و شمار پر یقین کرنا مشکل ہے۔ 22 مئی 2023 تک کراچی کی آبادی 1 کروڑ 91 لاکھ 24 ہزار 812 (19.12 ملین) شمار کی گئی تھی جبکہ 32 لاکھ (3.2 ملین) گھرانے شمار کئے گئے تھے۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار کراچی کی بادی میں کم گنتی کو ظاہر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں شہر کے بنیادی ڈھانچے جیسے کہ سکول، اسپتال، رہائش، سڑکیں اور ضروریات کی منصوبہ بندی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ شہر کراچی میں کم گنتی نے یہاں کے باشندوں میں استحصال اور عدم اطمینان کے جذبات پیدا کیے ہیں۔ مؤثر منصوبہ بندی کو یقینی بنانے اور شہر کی اصل آبادی کا تخمینہ لگانے کے لیے مردم شماری کے حکام کو اس عمل میں شفافیت کو بہتر بنانے کی ضرورت تھی مگر وہ اس میں ناکام رہے۔

نامکمل سوالات نامکمل جوابات کو جنم دیتے ہیں

2023 کی مردم شماری میں پانی کے استعمال اور متبادل توانائی کے ذرائع جیسے اہم عوامل سے متعلق سوالات کا فقدان ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے جواب دہندگان کو اپنے گھروں کے لیے روشنی کا ذریعہ منتخب کرنے میں الجھن کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بہت سے لوگ کراچی الیکٹرک، سولر پینل، یو پی ایس اور بیٹریوں جیسے متعدد اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ تاہم مردم شماری کے سوال نامے میں انہیں بجلی، سولر پینل، مٹی کے تیل، گیس لیمپ، جنریٹر اور دیگر میں سے صرف ایک آپشن منتخب کرنے کی اجازت تھی۔ یہ انتخاب مشکل رہا کیونکہ کراچی کی تقریباً 50 فیصد آبادی کو روزانہ 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ بجلی کے متعدد ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔

اسی طرح مردم شماری کے سوال نامے میں گھریلو پانی کے استعمال کے بارے میں کوئی سوال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس میں صرف گھر کے اندر اور باہر پینے کے پانی اور اس کے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ گھر کے اندر کے اختیارات میں نل کا پانی، موٹر پمپ/ ہینڈ پمپ، محفوظ کنواں، غیر محفوظ کنواں اور دیگر شامل تھے۔ گھر کے باہر کے حصے میں بوتل کا پانی، چشمہ، نہر/ دریا/ تالاب، فلٹریشن پلانٹ، ٹینکر اور دیگر شامل کیے گئے تھے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کراچی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور لوگ گھریلو استعمال کے لیے زیر زمین پانی پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ مگر اسے پینے کے لیے استعمال نہیں کرتے لہٰذا پینے کے پانی کا ذریعہ مختلف ہے جبکہ شہر میں اکثر ہیٹ ویوز کا سامنا بھی ہوتا ہے اور درجہ حرارت میں یہ بڑھتا ہوا رجحان پانی کی دستیابی اور استعمال سے منسلک ہے مگر اس بارے میں نہیں سوچا گیا۔

سوالنامے میں گھر کے تعمیراتی مواد کے سیکشن میں بھی ایک مشکل نقطہ نظر سامنے آیا۔ مثال کے طور پر چھت کے تعمیراتی سامان کے بارے میں سوال میں انہوں نے سیمنٹ اور لوہے کی چادروں کو ایک آپشن میں ضم کر دیا ہے جو زیادہ معنی نہیں رکھتا کیونکہ سیمنٹ کی چادروں اور لوہے کی چادروں کے مختلف حرارتی اثرات ہوتے ہیں۔ دونوں کے رہائشی افراد کے لئے حرارت اور گرمی کے معانی و مفہوم میں فرق نظر آئے گا۔ محکمہ شماریات کا یہ نقطہ نظر موسمیاتی تبدیلی کے خطرے اور لچک کے بارے میں پالیسیاں بنانے کے لیے مفید ڈیٹا فراہم نہیں کرے گا۔

مزید یہ کہ دیواروں کے تعمیراتی سامان کے بارے میں سوال نے پکی ہوئی اینٹوں، بلاکس اور پتھر جیسے مواد کو بھی ایک ساتھ جوڑ دیا جو گرمی کی لہروں کی صورت میں مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ محکمہ شماریات کے فراہم کردہ اختیارات کچے مکانات اور پکے مکانات تک محدود نظر آتے ہیں۔ ان سوالات میں وضاحت اور غور و فکر کا فقدان ہے جو تحقیق اور پالیسی سازی میں ان اعداد و شمار کے ممکنہ استعمال کو محدود کرتے ہیں۔

مضبوط اعداد و شمار کے بغیر 'کامیاب منصوبہ بندی' نہیں کی جا سکتی

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے 2023 کی مردم شماری کے سوالنامے میں کئی خلا سامنے آئے جن کی وجہ سے حاصل کردہ ڈیٹا کے ساتھ شہروں کی سماجی، اقتصادی اور آبادیاتی صورت حال کا جائزہ لینا مشکل ہو گا۔ دریں اثنا ترقی پذیر ممالک میں مردم شماری کے اعداد و شمار میں غلطیاں عام ہیں جن کی وجہ نامکمل گنتی، جواب دہندگان کی طرف سے فراہم کردہ غلط معلومات، یا ڈیٹا کو مرتب کرنے میں کمپیوٹر کی غلطیوں کی وجہ سے ہے۔

یاد رکھنے کی اہم بات یہ ہے کہ مردم شماری کا ڈیٹا شہروں کے مستقبل کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کراچی کی ترقی کی رفتار کم ہے اور درست اعداد و شمار کے بغیر ضروری ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ جبکہ شہر کی آبادی کا تخمینہ کم ہے، اس کے شہریوں کو درپیش مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ لاکھوں لوگ بڑے شہری مسائل جیسے کہ صاف پانی کی کمی، رہائش، فضلہ کے انتظام، طوفانی نالے کی صفائی، پبلک ٹرانسپورٹ، خراب سڑکیں، ناکافی صحت اور تعلیمی سہولیات، بجلی کی قلت اور کھلی جگہوں کی کمی وغیرہ کا سامنا کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ کراچی شہری سیلاب کا شکار ہے اور نشیبی علاقوں اور نکاسی آب میں رکاوٹوں کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔

شہر کی آبادی کے حجم کے درست علم کے بغیر لاپتہ آبادی کے لیے درکار وسائل کا اندازہ لگانا، یا شہر کے غریبوں کے لیے رہائش کی کمی کی حد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ مزید براں مضبوط مردم شماری کے اعداد و شمار سوالات کے جوابات دیتے ہیں جیسے کہ کتنے لوگ بے گھر ہیں یا ان کے گھروں سے بے دخل کیے گئے ہیں، غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد کی تعداد، غیر ہنر مند افراد کی ضروریات کیا ہیں۔ ہلاک ہونے والے کارکنوں، بچوں کی صحت اور تعلیم کی صورت حال، خواتین کو عوامی مقامات اور نقل و حمل کے استعمال میں درپیش مسائل، شہر میں بزرگ شہریوں کی تعداد اور ان کے لیے درکار سہولیات۔ ان سب کی صحیح منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم کے لیے حقیقی اعداد و شمار کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر کوئی کامیاب منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی۔

آبادی کی درست اور جامع گنتی نا صرف سیاسی حد بندی کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ اور سماجی طور پر حساس مسئلہ بھی ہے۔ مضبوط ڈیٹا مؤثر منصوبہ بندی کا باعث بنتا ہے۔ اس کی کمی معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے پسماندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ حکام کو مردم شماری کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہئیے اور اسے ویسی ترجیح دینی چاہئیے جس کی یہ متقاضی ہے۔

مزیدخبریں