سابق وزیر اعظم نواز شریف اور چیف جسٹس ثاقب نثار آمنے سامنے

11:42 AM, 4 Dec, 2018

اسد علی طور
ایک تو پاکستان میں تاریخی دن اور لمحات بہت آتے ہیں اور مُجھ جیسے لوگ رقم ہوتی تاریخ کا حصہ بننے کے شائق بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی لمحات عموماً اپنا ایک پسِ منظر رکھتے ہیں۔ ان لمحات کے اہم کرداروں کا ماضی بھی ہوتا ہے جو کہانی کو دلچسپ بناتا ہے۔ یہی صورتحال آج سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون کو مرکزِ نگاہ بنائے ہوئے تھی۔ کیس تو بہت سادہ تھا۔ اسی کی دہائی میں پاکپتن کے مزار سے ملحقہ محکمہ اوقاف کی زمین اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف کی منظوری سے بقول عدالت غیر قانونی طور پر الاٹ کر دی گئی تھی۔ اِس کیس میں سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔ اور آج میاں صاحب صبح نو بج کر بیس منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں حاضر ہو چکے تھے۔ پانچ ہی منٹ بعد کمرہِ عدالت میں آواز گونجی “کورٹ آ گئی ہے۔” تمام حاضرین عدالت بشمول میاں نوازشریف اپنے دائیں اور بائیں بیٹھے سابق وزیر خارجہ و دفاع خواجہ آصف اور راجہ ظفرالحق کے ہمراہ کھڑے ہو گئے۔

عدالت تین رکنی بینچ پر مشتمل تھی لیکن اِس بینچ میں شامل تینوں ججز اپنے سامنے حاضر نوازشریف کے سیاسی کریئر میں آنے والے اُتار چڑھاؤ سے بھی براہِ راست جُڑے تھے۔ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نوے کے آخر عشرے میں اُس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے لا سیکریٹری رہے تھے بلکہ نواز شریف کی بھیجی سفارشی سمری کی بنیاد پر صدرِ پاکستان رفیق تارڑ نے میاں ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ میں جج تعینات کیا تھا۔ بعدازاں جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا دیا اور نواز شریف تو اٹک قلعے قید ہو گئے لیکن جسٹس ثاقب نثار پی سی او کا حلف لے کر لاہور ہائیکورٹ کا واپس حصہ بن گئے اور ترقی پا کر 18 فروری 2010 کو سپریم کورٹ کا حصہ بن گئے۔ جنوری 2017 میں چیف جسٹ آف پاکستان کے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد انہوں نے نہ صرف نواز شریف کو مسلم لیگ نواز کی صدارت سے ہٹا دیا بلکہ اُن کے جاری کردہ سینیٹ کے تمام ٹکٹ بھی منسوخ کر دیے۔

آج بات چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے سامنے نواز شریف کی “اِن پرسن” پیشی پر آ پہنچی تھی۔ معزز جج آج سے 44 روز بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔

چیف جسٹس کے دائیں بینچ کے رُکن دوسرے معزز جج جسٹس اعجاز الاحسن میاں نواز شریف کے خلاف قائم کردہ پانامہ بینچ کے بھی رُکن تھے۔ انہوں نے پانامہ کیس میں میاں صاحب کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ بھی دے رکھا تھا اور بعدازاں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پارلیمانی سیاست سے تاحیات نااہلی کا فیصلہ دینے والے بینچ کا بھی جسٹس اعجاز الاحسن حصہ رہے۔ آج وہ اپنے سامنے اپنے ہی نااہل قرار پائے وزیراعظم کو بےبس بیٹھا دیکھ رہے تھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن بھی لاہور ہائیکورٹ سے ترقی پا کر 18 جون 2016 کو سپریم کورٹ کا حصہ بنے اور 26 اکتوبر 2024 کو چیف جسٹس آف پاکستان بن جائیں گے جبکہ 4 اگست 2025 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

بینچ کے سربراہ کے بائیں جانب بیٹھے تیسرے جج جسٹس فیصل عرب تھے۔ میاں نواز شریف سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف جس کیس کو اپنے خلاف شروع ہونے والی سازشوں کی بنیاد بتاتے ہیں سنگین غداری کے مقدمہ کے لیے قائم ہونے والی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب ہی تھے۔ آرٹیکل چھ کے ملزم جنرل مشرف نے معزز جج کو صرف ایک ہی بار منہ دکھائی کروائی۔ پھر جسٹس فیصل عرب 14 دسمبر 2015 کو سپریم کورٹ کا حصہ بن کر دو بار آئین کی تنسیخ اور ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے ملزم آمر جنرل مشرف کے مقدمہ سے علیحدہ ہو گئے جبکہ اُن کا ملزم جنرل مشرف اِسی سپریم کورٹ کی معاونت سے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوا کر مبینہ کمر درد کا علاج کروانے بیرونِ ملک منتقل ہو گیا اور اب کمر کو بہترین علاج کا ثبوت دینے کے لئے دبئی کے نائٹ کلبز میں ڈانس کر کے انصاف کے ایوانوں میں امیر و غریب میں امتیاز کے خاتمے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

شاید نوازشریف کو دیکھ کر جسٹس فیصل عرب کو اپنا سابق ملزم آمر جنرل مشرف بھی یاد آیا ہو۔ جسٹس فیصل عرب آج سے ٹھیک دو سال بعد 4 نومبر 2020 کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

میری طرح ہر کوئی نواز شریف اور معزز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے چہرے پر تاثرات دیکھ رہا تھا۔ میاں نواز شریف گہری سوچوں میں غرق کبھی کبھی عدالت میں کھڑے صحافیوں اور وکلا کی طرف ہلکی سی نظر ڈال لیتے لیکن وہ سامنے بیٹھے ججز کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد میاں نواز شریف نے اپنی جیب سے ایک صفحہ نکال کر اُس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ممکنہ طور پر اُس صفحے پر میاں صاحب کیس سے متعلقہ نکات نوٹ کر کے لائے تھے۔ ن لیگ کے تین رہنماؤں سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ اور شیخوپورہ سے ایم این اے میاں جاوید لطیف سے ہوئی مختصر گفتگو سے مُجھے معلوم ہو چکا تھا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بینچ سے گفتگو صرف متعلقہ کیس تک ہی محدود رہے گی۔ میاں نواز شریف انتہائی متحرک چیف جسٹس سے کسی بھی قسم کا سخت جُملہ سننے سے بچنا چاہتے تھے۔

چالیس منٹ کا انتظار کروا کر بالآخر دس بجکر سات منٹ پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ن لیگی رہنما بیرسٹر ظفراللہ سے سوال کیا کہ میاں نواز شریف کہاں ہیں؟ بیرسٹر ظفراللہ نے کہا بیٹھے ہوئے ہیں اور مُڑ کر میاں نواز شریف کی طرف دیکھا تو وہ پہلی قطار میں اپنی نشست سے اُٹھ کر روسٹرم پر آ گئے۔ میاں نواز شریف نے عدالت کی تعظیم میں سر کو ہلکا سا جُھکایا اور پھر سیدھے ہو کر وہی صفحہ اپنے سامنے کھول لیا۔ چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کیس کیا ہے اور آپ کے وکلا نے کیا جواب جمع کروا رکھا ہے۔ میاں نوازشریف نے جواب دیا ’جی ہاں میں نے فائل دیکھی ہے اور یہ بتیس سال پُرانا کیس ہے‘۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نواز شریف کو روکتے ہوئے پورے کیس کا پسِ منظر بتایا کہ کیس ہے کیا اور بات اُن کی پیشی تک کیسے پہنچی۔

معزز چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کیس سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ٹیک اپ کیا تھا اور ہمارے سامنے جب آیا تو آپ کے وکیل کے داخل کردہ جواب سے غیر مطمئن ہو کر ہم نے آپ کو طلب کیا۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے میاں نواز شریف کو مزید بتایا کہ اگر وہ سمری کی منظوری سے انکار کر دیتے ہیں تو وہ بری ہیں اور پھر ہم تحقیقات کروا لیں گے کہ کیا یہ جعلسازی تھی اور کون اِس میں ملوث تھا؟ میاں نواز شریف دوبارہ گویا ہوئے اور بینچ کے سربراہ کو “سر” کہہ کر بولے کہ “سر یہ بتیس سال پُرانا کیس ہے مُجھے نہیں یاد کہ میرے سامنے ایسی کوئی سمری لائی گئی یا میں نے منظوری دی ہو اور نوٹیفکیشن پر بھی میرے دستخط نہیں ہیں۔”

معزز بینچ کے سربراہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے میاں نوازشریف کا مؤقف سُن کر ریمارکس دیے کہ اگر معاملہ ایسا ہے تو ہم تحقیقات کے لئے ایک جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، آخر کون ذمہ دار تھا۔ اِس موقع پر میاں صاحب نے ہلکا سا ہنستے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کو جواب دیا کہ ’سر میرا ماضی کا جے آئی ٹی کا تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا براہِ مہربانی کسی اور فورم سے تحقیقات کروا لیں‘۔ یہ سُن کر کمرہ عدالت میں بلند قہقہ لگا اور بینچ میں شامل پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے والے جج جسٹس اعجاز الاحسن جو بعدازاں جے آئی ٹی کے نگراں جج بھی مقرر ہوئے تھے مسکرا دیے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کو مُخاطب کر کے کہا کہ میاں صاحب میں تو چاہتا ہوں آپ کو ہی منصف بنا دوں اِس کیس میں اور آپ خود دیکھ کر فیصلہ کریں کون ذمہ دار تھا اور کیا ہوا؟ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے آپ کی بطور وزیر اعظم بہت سی ایسی سمریاں آئیں جن پر آپ کے دستخط نہیں تھے لیکن آپ کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے کہا کہ وہ آپ کو سمری دکھا دیتے تھے اور آپ کے اوکے کرنے پر منظوری خود سے دے دیتے تھے۔ تو یہ پریکٹس تو رہی ہے اور اگر اِس پریکٹس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر بھی آج سے بتیس سال پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہو۔

المختصر چیف جسٹس نے ایک بار طنزیہ انداز میں بیرسٹر ظفراللہ کو یہ بھی کہا کہ شاید میاں نواز شریف جے آئی ٹی سے گھبراتے ہیں تو آپ ایک ہفتے میں جواب دیں کہ آپ کس تحقیقاتی ایجنسی سے تحقیقات کروانا چاہتے ہیں جس پر عدالت کو بھی اطمینان ہو۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حُکم لکھواتے ہوئے میاں نوازشریف سے دوبارہ استفسار کیا کہ میاں صاحب آپ کو کتنے دن چاہئیں جواب کے لئے؟ جس پر میاں صاحب نے کہا کہ سر وہی سات روز جو آپ نے بولے تھے۔ جس پر چیف جسٹس نے اوکے کہا تو میاں نوازشریف مہربانی جناب کہہ کر خاموش ہو گئے۔

سماعت مکمل ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کر کے کہا کہ ’میاں صاحب آن اے لائٹر سائیڈ میرے پاس چھبیس لوگوں کی کمیٹی کے نام آئے تھے کہ وہ آپ کے ساتھ پیش ہونا چاہتے ہیں تو میں نے کہا ضرور آ جائیں اگر میاں صاحب کو اتنے لوگوں کی سپورٹ چاہیے ہے تو اور خواجہ آصف کا نام بھی تھا وہ کِدھر ہیں؟‘ خواجہ آصف جو وکلا کے ہجوم کے باعث کافی پیچھے کھڑے تھے وہیں سے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر کہا میں یہاں ہوں۔ میاں نواز شریف نے بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو جواب دیا کہ سر مجھے کہا گیا تھا لوگ جانا چاہتے ہیں لیکن میں نے صرف خواجہ آصف، راجہ ظفرالحق اور سردار ایاز صادق کو آنے کا بولا تھا۔

دس بج کر سینتالیس منٹ پر عدالت نے اپنا آرڈر لکھوا کر میاں نوازشریف کو جانے کی اجازت دے دی اور میاں صاحب کی قانونی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ اگلی سماعت پر میاں نواز شریف کے پیش ہوئے بغیر بھی اپنا تحریری جواب جمع کروا سکتے ہیں۔ کمرہِ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے میں نے اپنے ساتھ چلتے سابق وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ سے پوچھا کہ سر اب سکون ملا تو رانا ثنا اللہ نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا ’ہاں کسی کی انا کی تسکین تو ہوئی‘۔
مزیدخبریں