چارسدہ کے ایک مقامی صحافی نے”نیا دور میڈیا“ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ مظاہرہ ختم نبوت سے منسلک ایک گروہ نے چارسدہ کے فاروق اعظم چوک میں کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ”چارسدہ کے باچا خان یونیورسٹی کا وائس چانسلر ثقلین نقوی کا تعلق اہل تشیع مکتبہ فکر سے ہے اور اس تنظیم نے پڑانگو کے علاقے میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ثقلین نقوی کا یونیورسٹی سے نکالا جائے ورنہ شدید مزاحمت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے تاہم پولیس نے ابھی تک اس پر کوئی کاروائی نہیں کی اور نہ قانون ہاتھ میں لینے والے اور نفرت امیز تقاریر کرنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔“
باچا خان یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ایک پروفیسر نے نیا دور میڈیا کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “ باچا خان یونیورسٹی سمیت صوبے کے دیگر یونیورسٹیز میں شیعہ مکتبہ فکر سے وابستہ کئی لوگ اچھے عہدوں پر کام کررہے ہیں مگر یہاں پر یونیورسٹی میں ایک گروپ وی سی کے عہدے کے لئے مذہبی گروپ کو استعمال کررہا ہے کیونکہ وی سی ثقلین نقوی کی آنے کی وجہ سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔“ انھوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر کے خلاف طالب علموں کا ایک مذہبی گروپ بھی سرگرم ہے جو ایک قابل وی سی کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں۔
نیا دور نے چارسدہ پولیس کے کئی اہلکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب مظاہرین نے مؤقف اختیار کیا کہ باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ثقلین نقوی ایک شیعہ ہے جو کسی صورت منظور نہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر وی سی کو فورا نہیں ہٹایا گیا تو اب احتجاج باچا خان یونیورسٹی کے سامنے ہوگا۔ مظاہرہن نے ایک اور وجہ بھی بتائی کہ وی سی نے یونیورسٹی سے چالیس کے قریب لوگوں کو نکالا اور پنجاب سے شیعہ مکتبہ فکر کے لوگوں کو بھرتی کیا۔