نیا دور کا قصور یہ تھا کہ جب سب اسحاق ڈار کا مذاق اڑا رہے تھے، یہاں دوسری طرف کا ورژن بھی چلایا جا رہا تھا۔ جس 2018 کے انتخابات کو یورپی یونین کے مشن کی ایک پریس کانفرنس میں بولے گئے ایک لفظ سے معتبر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، نیا دور پوچھ رہا تھا کہ یہ لفظ پوری رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا گیا، پریس کانفرنس کی پریس ریلیز میں نہیں لکھا گیا، رپورٹ کے جو حصے یورپی یونین کے فیسبک پیج پر ڈالے گئے ان میں نہیں لکھا گیا، تو دستاویزی ثبوتوں کو چھوڑ کر پریس کانفرنس میں کہے گئے ایک لفظ کو کیسے انتہائی متنازع انتخابات کو معتبر ٹھہرانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ تحریک انصاف نہیں چاہتی کہ یہ سوال اٹھایا جائے۔ دو، اڑھائی برس میں پہلی بار اگر کسی صحافی نے انجانے میں ہی سہی، اس پریس کانفرنس میں بولے گئے ایک لفظ سے اس حکومت کی ساکھ بنانے کے لئے کچھ بول ہی دیا ہے تو یہ نیا دور والے کیوں سچ بتانے پر تلے ہیں؟ وہ طوطے کی طرح ہمارا رٹایا ہوا پاٹ کیوں نہیں پڑھ رہے؟
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
پھر ایک ہیش ٹیگ بنایا گیا۔ #HardTalkNotCapitalTalk۔ یہ وہی ہارڈ ٹاک ہے جس میں صحافی نے عمران خان صاحب سے پوچھا تھا کتنے اسپتال اور سکول بنائے، نوکریوں کے وعدے پورے کیے تو خان صاحب اس کو چکر دینے کی کوششیں کرتے رہے تھے۔ مزیداری کی بات تو یہ ہے کہ حامد میر نے کتنی مشکل سے عمران خان کو لیڈر بنایا، انہیں بات بے بات اپنے شو پر بلاتے، ان کے انٹرویو کرتے، تب بھی جب خان صاحب کو کوئی نہیں بلاتا تھا، وہ اپنے انٹرویوز میں کہا کرتے تھے ہم دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں لیکن ہمارا کوئی ٹکر ہی نہیں چلاتا۔ حامد میر ان سے دنیا و معرفت کی ہر بات پوچھتے۔ انہیں قومی دھارے میں لائے۔ خان صاحب اکثر اپنی تقریروں میں، انٹرویوز میں بے پر کی اڑا دیا کرتے تھے۔ حامد میر ترنت ون آن ون انٹرویو کا انتظام کرتے اور خان صاحب کو صفائی کا موقع پیش کرتے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ سرکاری اکاؤنٹ سے ان کے پروگرام کے خلاف ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ تنقید اپنے بہی خواہوں کی بھی قبول نہیں اور ’حق اور انصاف‘ کی جنگ وہ صحافی لڑ رہے ہیں جو مسکرا کر پوچھتے ہیں، وہ اغوا کا کیا بنا؟ خان صاحب حیرانی سے پوچھتے ہیں کون سا اغوا؟ وہ نما سا ہنس کر کہتے ہیں، وہی آئی جی والا۔ خان صاحب کی باچھیں کھل جاتی ہیں، فرماتے ہیں، مجھے تو یہ سب کامیڈی لگتی ہے۔ کامیڈی ڈرامے کی ایک صنف ہے۔ یعنی آئی جی کا اغوا ڈرامہ تھا، وہ بھی مزاحیہ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
بات ہو رہی تھی حامد میر کی۔ میر صاحب نے بھی اس موضوع پر ایک کالم لکھا ہے۔ کہتے ہیں حکومت کے وزیر اور مشیر بی بی سی کے ایک صحافی سٹیفن سیکر سےبڑے خوش نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس برطانوی صحافی نے اپنے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کلین بولڈکردیا۔زیادہ پرانی بات نہیں‘معروف پاکستانی صحافی نسیم زہرہ نے لندن میں اسحاق ڈار سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو ایک نجی چینل پر نشر ہوا۔اس انٹرویو میں نسیم زہرہ نے اسحاق ڈار سے ہر قسم کے سوالات کئے اور سابق وزیر خزانہ کو بتانا پڑا کہ ان کا خانساماںکس نے اغواء کیا تھا۔
اس انٹرویو کے بعد نسیم زہرہ اور ان کے ٹی وی چینل کیلئے مشکلات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔متذکرہ چینل کی انتظامیہ کو حکم دیا گیا کہ نسیم زہرہ کو نوکری سے نکال دیا جائے ۔
چینل کی انتظامیہ نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس چینل کے خلاف پیمرا نے بار بار کارروائی کی ۔پیمرا نے ایک طرف اسحاق ڈار کے انٹرویوز اور بیانات نشر کرنے پر پابندی لگا دی، دوسری طرف مذکورہ چینل کو بند کر دیا۔
پچھلے اڑھائی سال میں اس چینل کو چار مرتبہ بند کیا جا چکا ہے ۔آخری بندش 90دن تک جاری رہی اور یہ بندش لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے ختم ہوئی۔
مزید لکھتے ہیں کہ پچھلے اڑھائی سال میں ایک نہیں‘ کئی پاکستانی ٹی وی چینلز سے منسلک متعدد صحافیوں کو نوکری سے فارغ کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا ۔کچھ چینلز نے دبائو قبول کر لیا، کچھ نے دبائو قبول نہیں کیا ۔
جنہوں نے دبائو قبول نہیں کیا انہیں جھوٹے مقدمات میں الجھا کر عبرت کی مثال بنانے کی کوشش کی گئی۔سٹیفن سیکر اور ان کا ادارہ خوش قسمت ہے کہ انہیں کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن حالات کا سامنا نسیم زہرہ اور ان کے چینل کو کرنا پڑا۔ برطانیہ میں صحافت آسان‘ پاکستان میں مشکل ہے ۔
حکومتی ترجمانوں کے ہر وقت منہ سے آگ نکالنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے کچھ غیر منتخب مشیروں کی نوکری صرف یہ ہے کہ جو اینکر حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا دے یا تھوڑی سی تنقید کر دے، اس کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دو ۔پھر اس طوفان بدتمیزی کو فائلوں میں سجا کر وزیر اعظم کے نوٹس میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ مارچ 2021ء میں سینٹ کی ٹکٹ مل جائے ۔
آپ کو حکومت کے کچھ غیر منتخب مشیروں کے لب ولہجے میں جو ضرورت سے زیادہ تلخی اور نفرت نظر آتی ہے، وہ اسی نفرت کو بیچ کر سینٹ کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ رویہ وزیر اعظم کو پسند ہے۔ وہ خود بھی ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے ایاز صادق کے بقول مودی نے ان سے کی تھی۔ وہاں تو سنا ہے ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ زور ہم صحافیوں پر ہی چلتا ہے گھر کے شیروں کا۔ اور غصہ اس بات کا ہے کہ گھر میں بھی کچھ ایسے ہیں جو نہیں سن رہے۔ منہ سے جھاگ نکلنا تو بنتا ہے۔ لیکن اگر فسطائیت یعنی fascism کو چھوڑ کر جمہوری انداز سے معاملات کو چلانے کی کوشش کی جائے، میڈیا کی آزادیوں کو دبانا بند کر دیا جائے، مخالفین کو بولنے کی آزادی دے دی جائے، تنقید کو تنقید سمجھا جائے، نہ کہ ذاتی دشمنی میں بدلا جائے تو اب بھی ممکن ہے کہ لوگ آپ کو سلیکٹڈ ہونے کے طعنے دینا بند کر دیں۔ ورنہ حامد میر تو خبردار کر رہے ہیں کہ دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں اپوزیشن کی طرف سے اسلام آباد کا گھیرائو ہو گا اور پھر گھیرائو کے خاتمے کیلئے ایک ڈائیلاگ شروع ہو گا۔