ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے سری لنکن منیجر کے قتل سے متعلق ابتدائی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزمان سمیت 112 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں، اشتعال دلانے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزمان کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔
فیکٹری مینیجرز کی معاونت سے واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا جس میں 900نامعلوم افراد شامل کئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں جس کے مطابق کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا، سری لنکن فیکٹری مینجر نے کہا سب مشینیں صاف ہونی چاہیے جس کےلئے سٹاف کو ہدایات دیں گئیں۔
مینجر نے مشین پر لگے اسٹیکر ہٹانے کا کہا، گرفتار فیکٹری ورکرز نے دعویٰ کیا ہے اسٹیکر پر مذہبی تحریر تھیں۔ بادی النظر میں اسٹیکر کو بہانہ بناکر ورکرز نے حملہ کر دیا۔ ورکرز پہلے ہی مینجر کے ڈسپلن ، کام لینے پر غصے میں تھے جبکہ کچھ ورکرز کو کام چوری، ڈسپلن توڑنے پر فارغ بھی کیا گیا تھا۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق وقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن شہری نے صبح 10 بج کر28 منٹ پردیوارپر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہےکہ فیکٹری منیجر زبان سے نا آشنا تھا جس وجہ سے اسے کچھ مشکلات درپیش تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کےساتھ تنازع حل کرایا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کردیا۔
تحقیقات کے مطابق فوٹیج سے پتا چلا کہ صبح 10 بج کر 40 منٹ پر منیجر کو عمارت سے نیچے گرایا گیا اور مشتعل افراد اسے گھسیٹ رہے تھے، منیجر کو مشتعل ملازمین نے اندر ہی مار دیا تھا، جس وقت اسے نیچے گرایا تھا وہ بے سدھ ہوچکا تھا اور غالب امکان ہے کہ نیچے گرانے سے منیجر کی موت واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد منیجر کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری ایریا سے باہر لایا گیا۔
تحقیقات کے مطابق گارمنٹ فیکٹری میں 13 سکیورٹی گارڈز تعینات تھے لیکن واقعے کے وقت تمام گارڈز بھی موقع سے فرار ہوگئے جس کے بعد ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش گھسیٹ کر باہر لے آئے، 11 بج کر 28 منٹ پر پولیس کو ون فائیو پر اطلاع دی گئی تو مقامی ایس ایچ او جائے وقوعہ پر پہنچے، صورتحال خراب دیکھ کر انہوں نے ڈی پی او کو کال کی جس پر ڈی پی او نے 27 انسپکٹرز کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی اور بھاری نفری کو طلب کرلیا۔
تحقیقات سے پتا چلا ہےکہ سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور ڈی پی او بھی خود پیدل بھاگ کر جائے وقوعہ پر پہنچے مگر ان کے پہنچنے تک ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش کو جلا چکے تھے۔
وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو ابتدائی رپورٹ بھجوا دی گئی ہے۔ واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلائوں کا جائزہ لیا جارہا ہے جبکہ سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی۔
دوسری جانب پنجاب پولیس کے ترجمان کے بیان کے مطابق آر پی او گوجرانولہ کی سربراہی میں پولیس ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے پوری رات چھاپے مارتی رہیں اور آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان رات بھر آپریشن کی خود نگرانی کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی پی او سیالکوٹ چھاپہ مار ٹیموں اور نفری کے ساتھ فیلڈ میں موجود رہے، رات سے 50 سے زائد مقامات پر پولیس نے چھاپے مارے جبکہ اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی اور پولیس کے متعلقہ سینئر حکام آپریشن میں شامل رہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ زیر حراست ملزمان سے تفتیش جاری ہے اور واقعے ملوث دیگر ملزمان کی نشاندہی میں مدد مل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کی شناخت اور تلاش کا عمل جاری ہے۔