سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق سری لنکن فیکٹری منیجر اپنی جان بچانے کے لیے 4 منزلہ عمارت کی چھت پر بھاگا تھا۔
سری لنکن منیجر نے چھت کے اوپر لگے سولر پینلز کے پیچھے چھپنے کی کوشش بھی کی، مگر 20 سے 25 مشتعل افراد نے اوپر آ کر اسے ڈھونڈ لیا۔
مشتعل افراد نے سری لنکن فیکٹری منیجر کو مارا، پیٹا، تیز دھار آلوں سے وار کر کے اس کا چہرہ مسخ کر دیا اور مارتے ہوئے نیچے لے گئے۔ سری لنکن فیکٹری منیجر کو عمارت کے اندر ہی قتل کردیا گیا، جس کے بعد مشتعل افراد اس کی لاش فیکٹری سے باہر لے آئے اور اسے جلا دیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو جمع کروائی گئی روپورٹ کے مطابق کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا، سری لنکن فیکٹری مینجر نے کہا سب مشینیں صاف ہونی چاہیے جس کےلئے سٹاف کو ہدایات دیں گئیں۔
مینجر نے مشین پر لگے اسٹیکر ہٹانے کا کہا، گرفتار فیکٹری ورکرز نے دعویٰ کیا ہے اسٹیکر پر مذہبی تحریر تھیں۔ بادی النظر میں اسٹیکر کو بہانہ بناکر ورکرز نے حملہ کر دیا۔ ورکرز پہلے ہی مینجر کے ڈسپلن ، کام لینے پر غصے میں تھے جبکہ کچھ ورکرز کو کام چوری، ڈسپلن توڑنے پر فارغ بھی کیا گیا تھا۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق وقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن شہری نے صبح 10 بج کر28 منٹ پردیوارپر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہےکہ فیکٹری منیجر زبان سے نا آشنا تھا جس وجہ سے اسے کچھ مشکلات درپیش تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کےساتھ تنازع حل کرایا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کردیا۔
تحقیقات کے مطابق فوٹیج سے پتا چلا کہ صبح 10 بج کر 40 منٹ پر منیجر کو عمارت سے نیچے گرایا گیا اور مشتعل افراد اسے گھسیٹ رہے تھے، منیجر کو مشتعل ملازمین نے اندر ہی مار دیا تھا، جس وقت اسے نیچے گرایا تھا وہ بے سدھ ہوچکا تھا اور غالب امکان ہے کہ نیچے گرانے سے منیجر کی موت واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد منیجر کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری ایریا سے باہر لایا گیا۔
تحقیقات کے مطابق گارمنٹ فیکٹری میں 13 سکیورٹی گارڈز تعینات تھے لیکن واقعے کے وقت تمام گارڈز بھی موقع سے فرار ہوگئے جس کے بعد ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش گھسیٹ کر باہر لے آئے، 11 بج کر 28 منٹ پر پولیس کو ون فائیو پر اطلاع دی گئی تو مقامی ایس ایچ او جائے وقوعہ پر پہنچے، صورتحال خراب دیکھ کر انہوں نے ڈی پی او کو کال کی جس پر ڈی پی او نے 27 انسپکٹرز کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی اور بھاری نفری کو طلب کرلیا۔
تحقیقات سے پتا چلا ہےکہ سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور ڈی پی او بھی خود پیدل بھاگ کر جائے وقوعہ پر پہنچے مگر ان کے پہنچنے تک ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش کو جلا چکے تھے۔