ان کا کہنا تھا کہ اب تو ایسے بہیمانہ واقعات پر مذمت اور افسوس کے الفاظ بھی بے معنی ہو چکے ہیں۔ سیالکوٹ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں کے شہری ناصرف خوش باش ہیں بلکہ وہاں تعلیم کا معیار بھی دیگر علاقوں سے زیادہ ہے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر سیالکوٹ شہر میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں تو دیگر جگہوں پر کیا حالت ہوگی۔ ہماری ریاست نے نوجوانوں کو مذہبی جنونیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ خدانخواستہ کوئی اور سانحہ بھی کسی نہ کسی وقت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ٹی ایل پی سے معاہدے کرکے انھیں پھولوں کے ہار پہنانے والے آج سیالکوٹ واقعے پر مذمت کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کو اس وقت خیال نہیں آیا کہ اب کوئی بھی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے جلا کر مار دے گا۔ مجھے تو ڈر ہے کہ جو لوگ ان کے پیداکردہ اور سہولت کار ہیں، یہ آگ کہیں ان کے گھروں تک نہ پہنچ جائے۔
غازی صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ واقعے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ہمارا سر شرم سے جھک گیا، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ اٹھا ہی کب تھا۔ سلمان تاثیر کا قتل اس بات کی بہت بڑی مثال ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی حکمرانوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ کچھ کر سکیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور گورنر پنجاب تھے لیکن اس وقت کے وزرا تک ان کی نماز جنازہ پڑھنے نہیں گئے تھے۔ اسمبلی میں ان کی مغفرت کی دعا تک نہیں کرا سکے۔
عباس ناصر کا کہنا تھا کہ ارباب اختیار سے کچھ کہنا بے فائدہ ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کو سالوں گزر گئے۔ اس دوران صرف ایک انوسٹی گیشن رپورٹ آئی لیکن اسے بھی دبا لیا گیا۔ میرے پاس سیالکوٹ واقعے پر بات کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ جو فصل ہم نے بوئی، وہی ہم کاٹیں گے، اس سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ اس فصل کی آبیاری کیلئے کسی نے کھاد ڈالی، کسی نے بیج اور کسی نے گوڈی کی اور کوئی پانی لایا۔ ہر ایک نے اپنے دور میں اپنا حصہ ڈالا۔ پاکستان کے اندر جو انتہا پسندی ہے وہ معاشرے سے ریاست کی جانب منتقل نہیں ہوئی بلکہ ریاست نے اسے اس جانب دھکیلا ہے۔ یہ کینسر پورے جسم میں سرایت کر چکا ہے۔