اور یہ رٹا لگانے میں ہمیں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا۔ پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ مشعل خان اور سیالکوٹ کے دو بھائی تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔ ہم بڑے پروقار انداز میں ان دونوں واقعات کو بھلا چکے ہیں۔ ساتھ ساتھ، سرکاری مشینری کی ایسے چونکا دینے والے واقعات سے نبرد آزما ہونے کی پریکٹس بھی ہو جائے گی۔ وہ فائلیں جن میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے روایتی طریقے لکھے ہوتے ہیں، ان کو بھی شیلف سے اتار کر ان میں لکھے طریقہ کار پر من و عن عمل کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کی دھچکہ لگنے والی ٹوئیٹ ہو گئی؟ ہو گئی۔ آئی جی نے مجرموں کو پکڑنے کی یقین دہانی کرا دی؟ کرا دی۔ موقع پر ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او کے 'فوراً' پہنچنے کی اطلاع آ گئی؟ آ گئی۔ وزرا کے وعدے، غصے والی ٹوئیٹس، اظہارِ تاسف؟ ہو گئیں۔ سرکاری مولویوں، علما نے یاد دہانی کرا دی کہ اس واقعے کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں؟ کروا دی۔ جس پر الزام لگ رہا ہے، اس کی تردید ہو گئی؟ ہو گئی۔ سب ہو گیا۔
اس کے بعد غیر سرکاری ردِ عمل کی باری۔ سلیبرٹیز نے غمگین ہونے، یہ ہم کہاں سے کہاں آ گئے والی ٹوئیٹس کر دیں؟ کر دیں۔ کسی سیاستدان کے حکومت، ریاست، معاشرے کو ذمہ دار ٹھہرانے والے پیغامات؟ آ چکے۔ سدا کے مشکوک افراد نے اسٹیبلشمنٹ کی انتہا پسندوں کے ساتھ اتحاد کی پالیسی پر انگلی اٹھا دی؟ اٹھا دی۔ دائیں بازو والے اس قتل کو اسلام اور اداروں کی پالیسیوں سے جوڑنے پر بائیں بازو اور درمیان والوں پر الزامات لگا رہے ہیں؟ لگا رہے ہیں۔ ٹاک شوز، کالم (بشمول اس کے)، سیمینار، آن لائن تبصرے، ٹوئٹر سپیسوں میں رونا دھونا ہو گیا؟ ہو گیا۔ سب ہو گیا۔
سب سے آخر میں، حادثے کے بعد والے رد عمل کی فائل دراز میں سے نکال کر اس پر عملدرآمد شروع۔ گرفتار شدہ افراد کو کیمروں اور عدالتوں کے سامنے پیش کر دیا گیا؟ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، آئی جی پولیس، وزرا نے کوئی قانون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکے گا والا بیان دے دیا؟ دے دیا۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزرا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے دہائیوں سے چلی آ رہی صورتحال پر اظہارِ افسوس اور اسے مستقبل میں ٹھیک کرنے کا لائحۂ عمل بنانے کا عہد کر لیا؟ کر لیا۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزرا نے لواحقین کی امداد کا اعلان کر دیا؟ کر دیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بے ہنگم پوائنٹس آف آرڈر پر بے ہنگم تقاریر ہو گئیں؟ ہو گئیں۔ مقامی انتظامیہ میں اہلکاروں کے تبادلوں اور انہیں افسر بکارِ خاص بنانے کا عمل مکمل ہو گیا؟ ہو گیا۔ رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی، نفرت انگیز مواد پر نظرِ ثانی کے مطالبات کر دیے گئے؟ کر دیے گئے۔ موم بتیاں جلانے، واک، ایک منٹ کی خاموشی کا اہتمام ہو گیا؟ ہو گیا۔ سب ہو گیا۔
اور پھر، جیسے یہ سب اچانک شروع ہوتا ہے، ویسے ہی ختم۔ اور بس۔ ختم۔ کیونکہ دیکھیے نا، ذمہ داری تو کسی پر عائد نہیں ہوتی۔ سب کو ذمہ دار قرار دیا جا چکا۔ اور جب سب ذمہ دار ہوتے ہیں، تو کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ظاہر ہے وہ ذاتی طور پر یہ یقینی نہیں بنا سکتا کہ ہر شخص جتھوں کے ایسے رویوں سے محفوظ رہے گا۔ اس کے پاس دیکھنے کو اس سے بڑے کام، دوسرے جھنجھٹ، اہم معاملات، بین الاقوامی صورتحال وغیرہ ہیں۔
وزیر اعلیٰ بھی نہیں۔ اس کام کے لئے تو اس کے پاس پولیس ہوتی ہے۔ اور ایک پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس۔ اور دوسری فورسز، محکمے، تنظیمیں، افرادی قوت، ایم این اے، ایم پی اے، مقامی اکابرین ہوتے ہیں تاکہ وہ اس قسم کی صورتحال پر نظر رکھیں اور خطرات کا تدارک کرتے ہوئے ان کو ہونے سے روکیں۔
آئی جی پولیس بھی نہیں۔ کیونکہ دیکھیے اگر یہ کام اسی نے کرنے ہیں تو پھر اس کے پاس یہ ایس ایس پی، ایس پی، ایڈیشنل ایس پی، ڈپٹی ایس پی، ایس ایچ او، ایڈیشنل سب انسپیکٹر کس لئے ہیں؟ سیدھی سی بات ہے۔ وہ بیچارا تو دور دراز دارالحکومت میں بیٹھا ہے، وہ کیسے ایسے جتھوں کو کسی کو قتل کرنے سے روک سکتا ہے؟ وہ تو صرف تحقیقات کا حکم، ماتحتوں کی سرزنش، تبادلے، تنزلیاں، معطلیاں ہی کر سکتا ہے۔ اور یہ کام وہ پوری ذمہ داری سے کرتا بھی ہے۔ تو اس پر انگلی کیوں اٹھائیں؟
کابینہ، حکومتی جماعت، حکومت بھی نہیں۔ کیونکہ دیکھیے نا انہیں تو اقتدار میں صرف تین سال ہوئے ہیں اور اس قسم کے واقعات ان نفرتوں کا نتیجہ ہیں جو دہائیوں سے دھرتی میں بیج کی طرح بوئی جا رہی ہیں۔ لہٰذا کابینہ، حکومتی جماعت، حکومت وہی کریں گے جو وہ کر سکتے ہیں۔ مذمت، افسوس، ماتم، الزام تراشی، معاملے کو سیاسی بنانا، لوگوں کا دھیان کسی اور جانب لگانا اور پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو جانا۔ آخر کار، انہیں پاکستان میں ہونے والے ہر واقعے کا ذمہ دار نہیں ٹھہریا جا سکتا کیونکہ انہیں اقتدار میں آئے صرف تین سال ہی تو ہوئے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں۔ کبھی نہیں۔ ان کا کسی جتھے کے ہاتھوں کسی کے قتل سے کیا لینا دینا؟ وہ تو دور اپنی بیرکس میں بیٹھے ہیں، اپنا کام کر رہے ہیں، ایسے تمام مسائل سے بہت دور جو ان کے مینڈیٹ میں نہیں آتے، کیونکہ وہ تو محض سرحدوں کے محافظ ہیں۔ پچھلے آمروں پر ذمہ داری ڈال سکتے ہیں؟ شاید لیکن وہ تو بہت پرانی بات ہے۔ انتہا پسند گروہوں اور ان کے نظریات کی پرورش؟ وہ تو ماضی کی بات ہے۔ اور ماضی، تو ان کے مطابق گویا کوئی اور ملک تھا۔ تو ان کا اس کھیل سے کوئی تعلق نہیں۔
سدا کے مشکوک گروہ، انتہا پسندی کے پیروکار، مدارس؟ پھر غلط۔ وہ تو رواداری، برداشت، محبت، امن، نیکی کا درس دیتے ہیں۔ ان کا کام معاشرے کو یہ بتانا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے مذہبی تعلیمات کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ سب سے اونچی آواز میں مذمت کریں گے اور یہ یاد دہانی کراتے رہیں گے، بار بار، بار بار، بار بار، کہ وہ مسئلے کا نہیں، مسئلے کے حل کا حصہ ہیں، ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ان پر یقین۔ کیونکہ ان پر الزام تو نہیں لگا سکتے۔
اور یوں دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ سب لوگوں پر تھوڑی تھوڑی نظریاتی، بیانیاتی ذمہ داری عائد کر دی جائے تاکہ کسی کو بھی ذمہ دار نہ ٹھہرایا جا سکے۔ ہم تو جیسے ہیں، ویسے ہیں، اور یہ قتل، عدم برداشت، نفرت، تعصب وغیرہ معاشرے میں کیوں ہیں، اس پہیلی کا جواب کوئی اور، کبھی اور، کسی اور صورتحال میں کسی اور وجہ سے کسی مخصوص سیاق و سباق میں ڈھونڈ لے گا۔ اس کا وقت آئے گا لیکن وہ وقت ابھی نہیں آیا اور وہ جگہ یہ نہیں ہے۔
اس جگہ پر کام کرنے کے کچھ طریقے وضع ہیں۔ وہ طریقے چیک لسٹ میں موجود ہیں اور ان پر عملدرآمد ہو جائے گا، کل، پرسوں، اگلے ہفتے یا اگلے ماہ۔ اور جب وہ ہو رہا ہوگا، ریاست، حکومت، حکومتی جماعت، دیگر جماعتیں، مذہبی تنظیمیں، سول سوسائٹی، اور ہم سب لوگ یہ ظاہر کریں گے کہ ہم نے اوسان خطا کر دینے والے اس قتل، تشدد، بربریت کے تازہ ترین واقعے سے اپنا سبق سیکھ لیا ہے۔ اس سے ہمیں کچھ کم برا محسوس ہوگا، تھوڑا بہتر لگنے لگے گا، احساسِ گناہ میں کچھ کمی آ جائے گی۔
اور یوں وہ کہانی ختم ہو جائے گی جو اس سوال سے شروع ہوئی تھی کہ آئینے، آئینے تو ہی بتا، کون ہے ہم میں سب سے بھلا؟ مگر جھوٹ ہم بولتے ہیں۔ آئینے نہیں۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔