صحافی عمر چیمہ نے یوٹیوب چینل پر اپنے وی لاگ میں بتایا کہ پرویز الٰہی نے راولپنڈی میں جنرل باجوہ کو کال کی اور عمران خان سے ملاقات کا تمام احوال کہہ سنایا اور پوچھا کہ آپ بتائیں کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے آصف زرداری کے ساتھ ہوئی ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ن لیگ کی وجہ سے کچھ اعتراضات ہیں جس کی وجہ سے کچھ بات نہیں بنی۔ پھر باجوہ صاحب نے کہا کہ پھر آپ حسبِ منشا فیصلہ کر لیں۔ اگر فیض حمید نے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہو جائیں تو آپ کی مرضی ہے۔
پرویز الٰہی کی چیئرمین پی ٹی آئی سے یہ ملاقات عمران خان کے بطور وزیراعظم عہدے کے خلاف پی ڈی ایم اتحاد کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے لئے "نمبر گیم" پوری کرنے کی جدوجہد کے دوران ہوئی۔
متحدہ پی ڈی ایم نے رواں سال جنوری میں فیہصلہ کیا کہ تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ یہ خبر آنے سے پہلے ہی جنرل باجوہ عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ عثمان بزدار کو پنجاب کی وزرات اعلیٰ سے ہٹا دیں۔ پنجاب میں کسی کام کرنے والے شخص کو لے کر آئیں تاکہ پنجاب کا اقتدار آپ کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ جب یہ خبر آئی تواس پر دوبارہ غور کرنے کو کہا گیا۔ عدم اعتماد آگئی ہے تو ان کچھ کرنا چاہیے تو عمران خان نے سوال کیا کیا کرنا چاہیے تو باجوہ صاحب نے کہا کہ آپ کا تو بیانیہ ہی تبدیلی کا تھا تو اگر آپ پنجاب میں تبدیلی لے آئیں تو لوگ یہ کہیں گے کہ آپ چیزوں کو بہتر کرنا چاہ رہے تھے اور اس دوران اپوزیشن نے عدم اعتماد کا حملہ کر دیا۔ اس پر غور و خوض شروع ہو گیا کہ متبادل کون ہونا چاہیے۔ باجوہ صاحب نے 2 نام دیئے؛ ایک علیم خان اور دوسرا چوہدری پرویزالٰہی۔ عمران خان علیم خان کے نام پر متفق ہو گئے۔ علیم خان لاہور میں تھے اسی لئے انہیں اسی روز خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد لایا گیا تاکہ عمران خان کا ذہن بدل نہ جائے تاہم عمران خان کا فیصلہ بدل گیا۔
جب مارچ میں تحریک عدم اعتماد نے سنجیدہ روپ دھار لیا اس دوران چوہدری پرویزالٰہی پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے بیچ "ہاٹ کیک" بنے ہوئے تھے۔ پی ڈی ایم کی آفر تھی کہ پرویز الٰہی ہماری طرف سے وزیراعلیٰ کے امیدوار بن جائیں۔ پرویز الٰہی کا مسلم لیگ ن کے ساتھ ماضی میں بھی کوئی خوشگوار تعلق نہیں رہا تاہم وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری پر اعتماد کرتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان تھے جو آفر دے رہے تھے تاہم پرویز الٰہی کا مطالبہ تھا کہ پہلے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ دکھائیں۔ یہ نہ ہو کہ ہم آپ کی طرف ہو جائیں لیکن آپ عثمان بزدار کو ہی وزیراعلیٰ برقرار رکھیں۔ اس دوران پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کی ایک صحافی سے ملاقات ہوئی اور رات میں مسلم لیگ ق عمران خان کے طرف ہو گئے۔ صحافی سے ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ہم فیصلہ اس لئے نہیں کر پارہے کہ کیونکہ دونوں جانب سے ماضی میں اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ اس کے علاوہ اس بار اس معاملے میں کوئی گارنٹی دینے والا بھی نہیں تھا۔ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے فیصلہ کرنے میں کوئی مدد بھی فراہم نہیں کی جارہی۔ جبکہ آج پرویز خٹک اور دو تین اور لوگ اس معاملے پر ملاقات کے لئے آرہے ہیں۔ خٹک صاحب نے کہا کہ عمران خان کہہ رہے آپ ہماری طرف آجائیں آپ کو نہیں پتا وہاں کیا ہونے والاہے۔ جب پرویز الٰہی اور مونس الٰہی وہاں گئے تو عمران خان نے کہا کہ یہ رہی وزارت اعلیٰ اور یہ عثمان بزدار کا استعفیٰ۔ وزارت اعلیٰ آپ کی ۔ جواب آیا سوچ کر بتائیں گے۔ خان صاحب نے کہا سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ اسی دوران پشاور سے جنرل فیض حمید کی کال آئی اور انہوں نے اصرار کیا کہ آپ عمران خان کا ساتھ دیں۔ پرویز الٰہی نے راولپنڈی میں جنرل باجوہ کو کال کی اور ان کو تمام احوال کہہ سنایا اور پوچھا کہ آپ بتائیں کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے آصف زرداری کے ساتھ ہوئی ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ن لیگ کی وجہ سے کچھ اعتراضات ہیں جس کی وجہ سے کچھ بات نہیں بنی۔ پھر باجوہ صاحب نے کہا کہ پھر آپ حسبِ منشا فیصلہ کر لیں۔ اگر فیض حمید نے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہو جائیں تو آپ کی مرضی ہے۔
تاہم جو گزشتہ رات انٹرویو میں مونس الٰہی نے کہا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنرل باجوہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی طرف جائیں۔ اس بیانیے سے کچھ علم نہیں ہو پارہا کہ وہ جنرل باجوہ کا ساتھ دے رہے ہیں یا عمران خان کی مخالفت کرہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پرویز الٰہی نے بھی ایسا ہی ایک بیان دیا تھا کہ ہم مشکور ہیں کہ جنرل باجوہ نے سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کے داخلے کی اجازت دلوائی ہے۔ وہ اس بات سے یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ آپ جنرل باجوہ کے احسان یادرکھیں اور احسان فراموش نہ بنیں۔
کسی جگہ بات کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے بھی کہا تھا کہ میں جس وقت کہوں چوہدری شجاعت اپنے تینوں ووٹ سے دستبردار ہو جائیں ۔ چوہدری شجاعت کے ووٹ نکلنے سے پی ڈی ایم کی حکومت گر جائے گی۔
صحافی عمر چیمہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک وقت ایسا آیا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ مین سے کسی کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز مونس الٰہی نے دعوی کیا کہ انہیں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ آپ تحریک عدم اعتماد میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں۔ جنرل باجوہ جنہیں پی ٹی آئی کئی ماہ سے ‘غدار’، ‘میر جعفر’، ‘جانور’ اور نجانے کیا کچھ قرار دیتی آئی ہے، دراصل عمران خان کی پنجاب حکومت ان ہی کے مرہون منت تھی۔
مونس الٰہی نے کہا کہ میں پہلے دن سے تحریک انصاف کے ساتھ جانا چاہتا تھا۔ ہمیں دونوں طرف سے وزارت اعلی کی پیشکش آ چکی تھی۔ پی ڈی ایم کی طرف سے بھی آفر تھی اور پی ٹی آئی کی طرف سے بھی۔
"میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ عمران خان کے ساتھ جائیں۔ تب ہی میں نے والد صاحب کو بھی اور شجاعت صاحب کو کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ آپ سب کی سنتے ہیں تو یہ بھی تو یہی کہہ رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں۔”
یاد رہے کہ جنرل باجوہ کے آرمی چیف کے عہدے سے ہٹتے ہی ایسی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں کہ وہ آخری وقت تک حکومت پر توسیع کے لئے دباؤ ڈالتے رہے اور پنجاب حکومت جو پی ڈی ایم کے لئے روز اول سے درد سر رہی ہے کیونکہ واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد یکایک ق لیگ کا اتحاد سے علیحدہ ہونا اور پھر ن لیگ کے حق میں ووٹ دینے والے پی ٹی آئی ارکان کو نشستوں سے ڈی سیٹ کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باعث پی ڈی ایم کو اس سے ہاتھ دھونا پڑے تھے، اس کے تحریک انصاف کے پاس جانے میں جنرل باجوہ کی آشیرواد مسلسل شامل تھی۔