شیخ بدین سے پرندے چلے گئے، اب میرے محبوب پر خشک ہوائیں لگتی ہیں
لکی مروت اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحد پر موجود 4500 فٹ لمبے شیخ بدین پہاڑ پر سرد ہوائیں رقص کرتی ہیں، اور اسی سرد ہواؤں کا ذکر جنوبی پختونخوا کے ادب کے ہر صنف خاص کر ٹپوں اور نغموں میں موجود ہے مشہور نغمہ۔۔۔ سڑہ سیلی د شیخ بدین پہ سر لگیگی زہ چی لاڑ شو، "سرد ہوائیں شیخ بدین کی چوٹٰی پر لگ رہی ہیں، چلو اُدھر چلتے ہیں، یہاں دیدار کبھی کبھار ہوتا ہے"۔ شیخ بدین پہاڑ پر تو بہت سے لوگ دعا کر رہے ہیں، بنوں، ٹانک، ڈی آ ئی خان اور لکی مروت سے یہاں لوگ آتے ہیں۔ یہ پہاڑ ان کیلئے لیلی کی مانند ہے۔ اسے عاشقوں کا پہاڑ بھی کہا جاتاہے۔
جنوبی پختونخوا کوہ سُلیمان پہاڑی سلسلے کے مشرقی حصے میں شیخ بدین پہاڑ پر جانے کیلئے دو راستے ہیں۔ لکی مروت پیزو سے قبلے کی جانب اور ڈی آئی خان پنیالہ سے جنوب کی جانب۔ ہمارا سفر قبلے کے راستے پہاڑ کی جانب ہے۔
شیخ بدین پہاڑ کو جانے کے دونوں راستے خراب ہیں۔ لیکن پیزو کا راستہ عام گاڑیوں کے لئے نہیں ہے پہاڑ پر چڑھنے کے لئے اپنی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ پچھلے 17 سالوں سے اس راستے کو بنانے کیلئے کام جاری ہے اور حکومتی کھاتے میں اس راستے کے بنانے کیلئے کروڑوں روپے بھی منظور ہوچکے ہیں، لیکن یہ راستہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا۔ تقریباّ 16 ہزار ہیکٹیر علاقے پر کھڑے شیخ بدین پہاڑ کی بلند چوٹیوں پر ہوائیں رقص کرتیں ہیں اور سرد ہوا کا احساس بندے کو اس بلند قامت پہاڑ کے ماتھے پرہی ہو جاتا ہے۔ شیخ بہاؤالدین بزرگ کے نام سے منسوب شیخ بدین پہاڑکو پہلے (شین غر اور غونڈ) کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ شیخ بہاؤالدین کے چوتھے پشت میں 35 سالہ پیر عارف نے کہا کہ ان کے آباؤاجداد اُن لوگوں میں شامل جو سب سے پہلے اس پہاڑ کے چوٹی پر آباد ہوئے ہیں۔ عارف کے مطابق اُن کا خاندان انگریز سے پہلے لگ بھگ 1830 میں یہاں آیا ہے، اوراُن کے پرداد ا فقیر شیخ بہاؤالدین گیلانی ہیں۔اس میں لوگوں کو غلط فہمیاں پیش آتی ہیں کہ یہ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی ہیں جن کا مزار ملتان میں ہے، لیکن عارف کے پر دادا کشمیر سے آئے تھے۔ انگریز اس کے بعد آئے ہیں اور پھر پاکستان بننےتک یہاں آباد تھے۔ عارف نے کہا انگریزوں کے باقیات میں ڈانسنگ فلارز اور تالاب موجود ہیں اُن کے 35 تک بنگلے ہیں جو اب کھنڈرات بن چکے ہیں، جیل اور پھانسی گھاٹ اب بھی موجود ہیں۔
شیخ بدین پہاڑی پر کھنڈرات انگریز سرکار کے رہنے اور فوجی اڈے کی نشانیاں ہیں یہاں انگریز فوجی اپنے خاندانوں کیساتھ رہے ہیں، یہاں پر عدالت کے فیصلوں، جیل کی زنجیروں، پھانسی گھاٹ کی چیخوں اور ان تالابوں کے کنارے میم (انگریز خواتین) کی ہنسی رقص کے یادوں کے افسانے ہیں۔ اس حوالے سے عبدالرحیم مجزوب شاعر نے کیا خوب کہا ہے "انگلستان کی جوان لڑکیوں کی خوبصورت زلفیں، تیری ہواؤں میں چہرے پر لٹکتی زلفیں۔۔۔"۔
لکی مروت پیزو یونین کونسل کے سیاسی کارکن ملک اشرف نے شیخ بدین کے ماتھے پر کھنڈرات کے حوالے سے بتایا کہ یہ سب انگریز سرکار کی نشانیاں ہیں۔ یہ بنیادیں یہ تعمیرات تمام انگریزوں کی ہیں یہ ریسٹ ہاوس یہ پھانسی گھاٹ یہ پولیس سٹیشن، عدالتیں یہ سب انگریزوں نے بنائے ہیں۔ ملک اشرف نے مزید بتایا کہ شیخ بدین جنوبی پختونخوا کے لوگوں کیلئے ایک سیاحتی مقام ہے۔ پہلے لوگ گرمیوں میں رمضان گزارنے کیلئے آتے تھے ۔یہاں پر لوگ موسیقی کے پروگرامز بھی کیا کرتے تھے لیکن اب وہ مزا نہیں رہا اب موسیقی پر پابندی کے حوالے سے یہاں جگہ جگہ دیواروں پر لکھا گیا ہے۔
1850 سے انگریزوں کا برصغیر سے نکلنے تک شیخ بدین کی خوبصورتی کے قصے انگریز فوجیوں کی یاداشتوں میں رقم ہیں۔ 1880 کے قریب ہونے والی دوسری اینگلوافغان جنگ کے زخمیوں کا علاج بھی یہاں ہوا تھا۔ اُس وقت برٹش بلوچستان جس میں جنوبی پختونخوا شامل تھا پر کنٹرول قائم رکھنے کیلئے گرمی میں شیخ بدین یا مروت رینج بطور ہِل سٹیشن استعمال ہوا ہے۔ شیخ بدین کی چوٹی پر پانی نہیں ہے،لیکن جس طرح جنوبی پختونخوا میں روایتی طریقوں سے پانی کو محفوظ کیا جاتا تھا اس طرح انگریزوں نے بھی بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے تالاب بنا ئے تھے اور خطےکے پُرانا طریقہ کاریز سسٹم سے کاشتکاری کو بھی ممکن بنایا تھا۔
تالابوں کے کنارے کھڑے ان درختوں کی اپنی کہانی ہے۔ لکی مروت فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق مقامی درختوں میں جنگلی زیتون، کہو، میزری اور سنتہ شامل ہیں، لیکن برٹش ڈی آئی خان گزٹیئر کے مطابق چیڑ کے درخت کیساتھ باقی درخت بھی انگریز کے لگائے ہوئے ہیں اس کے علاوہ عیسائی مبلغ تھامس جان لی میر نے یروشلم، بیت المقدس سے تبرک کے طور پر وہاں کے مشہور زیتون پہاڑی سے زیتون کی قلمیں یہاں جنگلی زیتون میں لگائی تھیں۔ پیر عارف کے مطابق سفیدا، شہتوت یا توت، چیڑ کے درخت بھی لگائے تھے۔
یاد رہے کہ سال 2003 میں شیخ بدین کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا صوبائی حکومت نے سیاحوں کے لئے رہنے کا انتظام بھی کیا ہوا ہے لیکن پانی اور دوسری سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سیاح کم آتے ہیں۔ لکی مروت سیف اللہ برادران کے مشال خان نے شیخ بدین کی خوبصورتی اور عدم توجہی کے حوالے سے بتایا کہ اُنہیں افسوس ہے کہ حکومتیں دوسرے علاقوں میں ترقی دے رہی ہیں تو شیخ بدین کو کیوں نہیں دیتیں۔ اس سے بھی تو آمدنی آسکتی ہے اس سے بھی گورنمنٹ کے خزانے میں پیسے جا سکتے ہیں۔ مشال خان نے مزید کہا کہ جس طرح لکی مروت کو دوسرے ترقیاتی کاموں کی مد میں محروم رکھا گیا ہے اسی طرح شیخ بدین مقام کو بھی ترقی نہیں دے رہے۔ مشال نے بتایا کہ یہاں صوبے کے وزیراعلی نے بھی دورہ کیا ہے۔مسلم لیگ دور میں مہتاب عباسی سمیت دوسرے وزرا آئے ہیں وعدے ہوئے ہیں لیکن شیخ بدین کی ترقی کو توجہ نہیں دی گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر یہ مقام لکی مروت کے بجائے کسی دوسرے علاقے میں ہوتا تو یہ ایک منفرد سیاحتی مقام ہوتا۔ یہاں پر لوگ آتے جس طرح کالام یا سوات لوگ جاتے ہیں۔
جنوبی پختونخوا کے لوگوں کیلئے شیخ بدین ایک سیاحتی مقام ہے لیکن ایک طرف حکومتی عدم توجہ ہے اور دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلی نے شیخ بدین کی خوبصورتی کو ماند کر دیا ہے۔ سال 2014 تک یہاں ہر سال برف پڑتی تھی لیکن پچھلے 4 سالوں سے ان پہاڑوں پر برف نہیں پڑی تھی۔ دوسری جانب شیخ بدین پہاڑی کے دامن میں لکی سیمنٹ فیکٹری ہے جس سے مقامی لوگوں کی معیشت وابسطہ ہے لیکن اس فیکٹری نے شیخ بدین پہاڑی سلسلے کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق فیکٹری شیخ بدین کے ماحول کی بحالی کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔ پیزو کے سیاسی کارکن عبدالمطلب نے اس حوالے سے کہا کہ وہ فیکٹری کے انتظامیہ اور مالک کے خلاف نہیں ہیں۔ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بڑی سرمایاکاری کی ہے لیکن شیخ بدین اس علاقے کے قدرتی وسائل ہیں۔ یہاں سے فیکٹری لائم سٹون لے جاتی ہے۔ سیمنٹ میں 95 فیصد لائم سٹون استعمال ہوتا ہے۔ لکی سیمنٹ فیکٹری مفت میں اسے استعمال کر رہی ہے اور اس کی قیمت ادا نہیں کرتی۔ عبدالمطلب نے مزید کہا کہ سیمنٹ میں پانچ فیصد شل کلے بھی استعمال ہوتی ہے۔ اس کی قیمت بھی فیکٹری ہمیں ادا نہیں کرتی جو قیمت خیبر پختونخوا معدنیاتی رولز کے مطابق ادا کرنی چاہیئے۔
پچھلے 50 سالوں میں شیخ بدین پہاڑ کا حیاتیاتی تنوع بہت متاثر ہوچکا ہے۔ پیر عارف کے مطابق اُنہوں نے جو اپنے آباؤ اجداد سے قصے سنے ہیں یہاں ہر ہر قسم کے ہرنیں، تندوے ( گُلدار) ، چیتے اور دوسرے جنگلی جانور تھے، لیکن اب یہاں کچھ بھی نہیں بچا اب یہاں سے جنگلی جانور، پرندے وغیرہ جا چکے ہیں۔ جنوبی پختونخوا کے عاشقوں کے پہاڑ پر لگ بھگ دو سو سال کی آخری نشانیاں اب بھی موجود ہیں لیکن اب اس خاموش پہاڑی سلسلے سے نہ تو تیتر، بٹیروں کی آوازیں آتی ہیں اور نہ ہی مست ہرنوں کے پاؤں کی نشانیاں موجود ہیں۔
" شیخ بدین سے پرندے چلے گئے، اب میرے محبوب پر خشک ہوائیں لگتی ہیں"۔